اذان اورجماعت کے درمیان وقفہ کی مدت

پانچ وقت کی نمازوں  میں اذان اورجماعت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اورکیوں ؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیجیے۔
جواب

اذان اوراقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں احادیث میں کوئی بات متعین طورسے نہیں کی گئی ہے ۔حضرت جابرؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا: ’’اپنی اذان اوراقامت کے درمیان اتنا فاصلہ رکھو کہ کوئی شخص کھانا کھارہاہو تو کھالے،پانی پی رہاہو تو پی لے اور ضرورت ہوتو رفع ِ حاجت کرلے۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے( کتاب الصلاۃ ، باب ماجاء فی الترسل فی الاذان،۱۹۵) لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان (ترجمۃ الباب ) یہ قائم کیا ہے : باب کم بین الاذان والاقامۃ؟(اذان اوراقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟) اس کے تحت انھوں نے حضرت عبداللہ بن مغفل المزنیؓ سے مروی یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلَاۃٌ -ثَلَاثًا - لِمَنْ شَاءَ
(کتاب الاذان ،حدیث نمبر ۶۲۴)
’’ہردو اذانوں (یعنی اذان واقامت ) کے درمیان نماز ہے۔‘‘ (یہ جملہ آپؐ نےتین بار دہرایا) اس شخص کے لیے جو نماز پڑھنا چاہے۔‘‘
امام بخاریؒنے اسی باب میں  یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اذان کے بعد صحابۂ کرام مسجد کے ستونوں کو اپنے آگے کرکے نماز پڑھاکرتے تھے، یہاں  تک کہ رسول ﷺ اپنے حجرے سے نکلتے اورامامت فرماتے۔(حدیث نمبر ۶۲۵)
اس تفصیل سے امام بخاریؒ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اذان اوراقامت کے درمیان اتنا وقفہ کم ازکم ضرورہونا چاہیے کہ کوئی شخص چاہے تو چند رکعتیں  نوافل ادا کرلے۔
اذان کامقصد لوگوں کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دینا ہے، تاکہ وہ مسجد آکر باجماعت نماز ادا کرلیں ۔ اس لیے اذان واقامت کے درمیان اتنا فاصلہ توضرورہونا چاہیے کہ کوئی شخص اذان سننے کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہو، وضو کرے اور مسجد تک آئے تو اس کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو۔ محدث ابن بطالؒ فرماتے ہیں ۔
لَا حدّ لذلک، غیر تمکن دخول الوقت واجتماع المصلین
(ابن حجر عسقلانی ، فتح الباری، بیروت ،۱؍۷۱۵)
’’اس کی کوئی حد نہیں ، سوائے اس کے کہ وقت ہوجائے اورنمازی اکٹھا ہوجائیں ۔‘‘
مغرب کی نماز کے موقع پربھی کچھ وقفہ رکھنا چاہیے۔ احناف کے نزدیک چوں  کہ مغرب کا وقت تنگ ہوتا ہے، اس لیے صرف اتنا وقفہ کرنا چاہیے کہ قرآن کی تین آیتیں پڑھی جاسکیں ۔ لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں  صحابۂ کرام مغرب کی اذان کے بعد اقامت سے قبل دورکعت نماز پڑھاکرتے تھے۔(بخاری، کتاب الاذان،۶۲۵) اس لیے کم ازکم اتنا وقفہ توضروررکھنا چاہیے۔