صحابہ کرامؓ کے متعلق عقیدۂ اہلِ سنت

میں آپ کی کتاب خلافت و ملوکیت کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں ۔ آپ کی چند باتیں اہل سنت و الجماعت کے اجماعی عقائد کے بالکل خلاف نظر آ رہی ہیں ۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا بھی عیب بیان کرنا اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے خلاف ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہو جائے گا۔ آپ کی عبارتیں جو اس عقیدے کے خلاف ہیں وہ ذیل میں نقل کرتا ہوں :
’’ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے دوسرے بزرگ کے ذاتی مفاد سے اپیل کرکے اس تجویز کو جنم دیا۔‘‘
(خلافت و ملوکیت ،ص ۱۵)
’’اب خلافت علی منہاج النبوۃ کے بحال ہونے کی آخری صورت یہ باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہؓ یا تو اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کا معاملہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیتے یا اگر قطع نزاع کے لیے اپنی زندگی ہی میں جانشینی کا معاملہ طے کر جانا ضروری سمجھتے تو مسلمانوں کے اہلِ علم و اہلِ خیر کو جمع کرکے انھیں آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہدی کے لیے امت میں موزوں تر آدمی کون ہے۔ لیکن اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف و طمع کے ذرائع سے بیعت لے کر انھوں نے اس امکان کا بھی خاتمہ کر دیا۔‘‘ (خلافت و ملوکیت، ص۱۴۸)
براہِ کرام آپ بتائیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں آپ اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے کو غلط سمجھتے ہیں یا صحیح؟

صحابہ کرامؓ پر تنقیدکا ایک صریح بہتان

ترجمان القرآن،دسمبر ۱۹۵۵ میں جناب نے حضرت صدیقؓ کی بندش کفالت مسطح کو غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔کیا صدیقؓ کا نبوت سے صرف بیٹی ہی کا تعلق تھا؟ بالفرض اگر حضرت کے کسی دوسرے حرم پر یہ بہتان ہوتا تو کیا حضرت صدیقؓ کو غیرت نہ آتی؟ کیا وہاں اَلْحُبُّ لِلّٰہ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ کا جذبہ کارفرما نہ تھا؟ ولایَاتِلِ اُولُوا الْفَضْلِ سے استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیوں کہ یہاں صرف کفالت کا کھولنا نہایت نرم لہجے میں مقصود تھا۔ چنانچہ لفظ اُولْوا الْفَضْلِ وَالسَّعَۃِ اور پھر اَلا تُحِبُّون اَن یَّغْفِرَ اللّٰہ لَکُمْ (النور:۲۲) سے ان کے پاکیزہ جذبات سے معافی کی اپیل ہے۔اس میں عتاب کی بو بھی نہیں ۔ اس کو وعید تصور کرنا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔علاوہ ازیں یہاں کفالت کی طرف تعرض کیا گیا ہے۔بندش کفالت کے اصل محرکات کو نہیں چھیڑا گیا ،جس کو آپ نے غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔اگر یہ محرکات غیر اسلامی ہوتے تو اَنْ یُّوْتُوا اُولِی الْقُرْبٰی کے بجاے انھی محرکات کا آپریشن ہوتا، واللّٰہ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ۔ منبع فساد کو چھوڑ کر شاخوں کا انسداد قرآن کی حکیمانہ شان سے بعید ہے۔کفالت تو ان الفاظ سے کھل گئی، لیکن یہ منبع فساد غیر اسلامی حمیت تو ان کے دل میں ویسے ہی مستحکم رہی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے متعلق اسی ترجمان [دسمبر ۱۹۵۵ئ]میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ غالباًیہی شخصی عظمت کا تخیل تھا جس نے اضطراری طور پر حضرت عمرؓ کو تھوڑی دیر کے لیے مغلوب کردیا۔ کیا نبی کی شخصیت اور اس کی عظمت کا تخیل اسلام میں ممنوع ہے؟ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ({ FR 1115 }) الحدیث کا کیا معنی؟ باقی رہا قانونِ ربانی کے مقابلے میں نبوت پرستی یا شخصیت پرستی تو محبوب دو عالم ﷺ کی زندگی میں تو عمرؓ شخصیت پرست نہ تھے۔ بعد از انتقال یہ شخصیت پرستی کہاں سے ان کے دل میں گھس گئی؟ اساریٰ بدر،صلح حدیبیہ، مسئلہ حجاب،رئیس المنافقین کا جنازہ وغیرہ لاتعداد واقعات موجود ہیں ۔صحابہ کرامؓ اور خلفاے راشدین مہدیین کے متعلق ہمیں کس حد تک سوء ظن جائز({ FR 1116 }) ہے؟ کیا ان حضرات کے افعال کی ان توجیہات کے علاوہ اور توجیہ ناممکن تھی؟ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ({ FR 1117 }) اور أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ({ FR 1118 }) کا کیا مقصد ہوگا؟

غلافِ کعبہ اور تبرک

جو غلاف ابھی چڑھایا نہ گیا ہو بلکہ چڑھانے کے لیے تیار کیا گیا ہو، وہ تو محض کپڑا ہے، آخر وہ متبرک کیسے ہو گیا کہ اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے اہتما م کے ساتھ جلوس کی شکل میں روانہ کیا جائے۔ پھر جو غلاف خانہ کعبہ سے اُترتا ہے، اس کی تعظیم وتکریم کیوں روا نہیں رکھی جاتی اور فقہا نے اس کا عام کپڑے کی طرح استعمال واستفادہ کیوں جائزرکھا ہے۔

غلافِ کعبہ اوربدعتِ مذمومہ

غلاف کی نمائش وزیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔کیوں کہ نبیﷺ اور خلافت راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالاں کہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔اگر غلاف کی نمائش کرنا اور اس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے جنھیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائر اﷲ قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ ومذموم ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔

غلافِ کعبہ اورشعائر اﷲ

غلاف کعبہ کو قرآن وحدیث میں شعائر اﷲ کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا،اس لیے عملاً یا اعتقاداً اس کی تقدیس وتعظیم ضروری نہیں ۔یہ بس کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے،اس سے زائد کچھ نہیں ، خواہ یہ کعبے کی نیت سے بنے یا نہ بنے۔کعبے سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والی اگر ہرشے کا شمار شعائر اﷲ میں ہونے لگے اور اس کی تعظیم لازم سمجھی جائے تو پھر تعمیر کعبہ کے لیے جانے والا پتھر یا اس طرح کی دوسری اشیا بھی قابل تعظیم ٹھیریں گی۔

غلاف کعبہ کا جلوس اور جھوٹے الزامات

غلاف کعبہ کی نمائش بجاے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سی دیگر بدعات، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمائش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے ،عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں ، نذرانے چڑھاے گئے ہیں ، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں ،حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے ہیں ۔ پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھا یا گیا۔
معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبۂ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لیے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا۔ چنانچہ ان نتائج وعواقب کی ذمہ داری آپ پر براہِ راست عائد ہوتی ہے۔

کیا آپ جمہور علماے سلف کی تحقیقات واجتہادات پر اپنی تحقیقات کو ترجیح دیتے ہیں یا اس کے برعکس اپنے استنباطات کو ان کے اجتہادات کے مقابلے میں مرجوح قرار دیتے ہیں ؟‘‘

غلاف کعبہ کی نمائش اور اس کا جلوس

حال ہی میں بیت اﷲ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر وسعادت ہے۔مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے،اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈکے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں ۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں ۔طرح طرح کے اعتراضات چوں کہ بار باراٹھائے جارہے ہیں اس لیے بہتر اور مناسب ہے کہ آپ ان کا جواب دیں ۔

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب کی تصدیق کی ضرورت

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب جس میں آپ پر اعتراضات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے، ابھی ابھی شائع ہوئی ہے اور میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ماشاء اللّٰہ کتاب ہر لحاظ سے مدلل ہے۔ جن لوگوں کو واقعتا کچھ غلط فہمی ہوگی وہ تو دور ہو جائے گی، لیکن جو ضدی اور عنادی ہیں ان کا علاج مشکل ہے۔ میں نے کئی دوستوں کو مطالعے کے لیے دی چنانچہ وہ مطمئن ہوگئے لیکن ایک مولانا صاحب نے کتاب پڑھنے کے بعد کہا کہ مجھے تسلی ہوگئی ہے لیکن ایک اشکال ہے، وہ یہ کہ مفتی صاحب نے جو توجیہات کی ہیں خود مولانا مودودی نے ان کا انکار کیا ہے اور اسی واسطے اس کتاب کی تقریظ اور تصدیق انھوں نے نہیں کی۔ میں نے کہا اگر ان کو اختلاف تھا تو ان کی کتابوں کے ناشر نے اسے کیوں شائع کیا اور اس پر کیوں دیباچہ لکھا؟ مزید برآں ترجمان القرآن، ایشیا، آئین میں اس کتاب کا اشتہار کیوں دیا گیا ہے؟ لیکن وہ صاحب مُصر ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اختلاف کے باوجود ہے اور جماعت کے بعض آدمیوں کی مرضی سے ہوا ہے، خود مولانا مودودی صاحب ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ان مولوی صاحب کا اصرار ہے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو خود خط کے ذریعے معلوم کرکے دیکھ لو۔ چنانچہ اسی خاطر یہ منتشر سطور تحریر کرکے ارسالِ خدمت ہیں کہ آپ اپنے قلم سے اس قسم کے لوگوں کی تسلی کی خاطر چند سطور لکھ دیں ۔

مولانا حسین احمد صاحب کا ایک فتو ٰی اور اس کا جائزہ

جناب مولانا حسین احمد صاحب مدنی نے ایک پمفلٹ’’مسلمان اگر چہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘شائع کرایا ہے، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہل سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیات صریحہ کے بالکل منافی ہے۔ اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزو ایمان ہونے کے قائل ہیں ، جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کو شافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔حالاں کہ شافعیہ ومحدثین اعمال کو ایمان کا جزوِ مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں ۔ازراہِ کرم اس مسئلے کے متعلق اپنا عقیدہ بالوضاحت تحریر فرما ویں ،اور ترجمان القرآن میں شائع فرما ویں ۔انھوں نے آپ کی مندرجہ ذیل عبارات کو بطور دلیل پیش کیا ہے:
(۱) ’’رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے،دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں ،یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے،اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا،تو وہ قطعاًمسلمان نہیں ہیں ۔جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔‘‘({ FR 1092 })
(۲) ’’اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں ۔ کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ({ FR 1093 })
(۳) ’’ان دو ارکان اسلام یعنی(نماز وزکاۃ) سے جو لوگ رو گردانی کریں ،اُن کا دعواے ایمان ہی جھوٹا ہے۔‘‘({ FR 1094 })
(۴) ’’قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکاۃکا پابند نہ ہو۔‘‘ ({ FR 1095 })
یہ سب حوالہ جات خطبات بار ہفتم کے مطابق ہیں ۔