چاند تارے والی چٹائیوں پر نماز

ہمارے علاقے میں اکثر مساجد میں جن چٹائیوں پر نماز ادا کی جاتی ہے ان میں چاند تارے بنے ہوتے ہیں ۔ ان پر نماز پڑھنے کی صورت میں حالت ِ سجدہ میں نماز کی پیشانی ان چاند تاروں پر پڑتی ہے۔ اس کے پیش نظر کچھ لوگ ان چٹائیوں کو الٹا کرکے چاند تاروں کو پیروں تلے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورج اور چاند کو سجدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ چٹائی الٹی کرکے اس پر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی اعتبار سے صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت فرمادیں ۔

نماز میں سجدۂ تلاوت

سورۃ اقرا کے اخیر میں سجدۂ تلاوت ہے۔ اگر امام نماز میں اس سورۃ کو پڑھے تو وہ سجدۂ تلاوت کس طرح کرے گا؟ وہ پہلے رکوع کرے گا یا سجدۂ تلاوت؟

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا

فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا رواج ہوگیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ عہد نبویؐ میں اس کا رواج نہیں تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ، شریعت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جہری اور سرّی نمازوں کی حکمت

ظہر اورعصر کی نمازوں میں قرأت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاکی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟

فقہ مالکی میں نمازمیں دورانِ قیام ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟

نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلما (احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے ۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں :
۱- احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں ۔ قدیم ترین مجموعۂ احادیث غالباً خود امام مالک ؒ کا مرتب کردہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’مؤطا ‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲- امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری ۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے ۔ انہوں نےمدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتےہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالکؒ کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے ؟
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔

نماز کا ایک مسئلہ

ہماری مسجد کے امام کو فجر کی فرض نماز کی پہلی رکعت میں غلطی کے نتیجے میں نماز دہرانا پڑی ۔ ہمارے ایک ساتھی نے ، جس کی پہلی رکعت چھوٹ گئی تھی اور جس نے امام کے ساتھ صرف دوسری رکعت پائی تھی ، امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت ملا کر اپنی نماز مکمل کرلی ۔ دیگر مصلیوں نے نماز دہرائی، لیکن اس نے نہیں دہرائی ۔ اس کا استدلال تھا کہ امام صاحب کو پہلی رکعت کی قرأ ت کی خامیوں کی وجہ سے نماز دہرانی پڑی ، جب کہ میں پہلی رکعت میں موجود ہی نہیں تھا ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ہمارے ساتھی کو ایسی صورت میں نمازقضا کرنا پڑے گی یانہیں ؟