صحابہ کرامؓ کو بُرا بھلاکہنا

صحابہ کرام ؓ کو برا بھلا کہنے والا، ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنے والا جو دین داروں کی شان سے بعید ہیں ،فاسق وگناہ گار ہے یا نہیں ؟

رفعِ مسیح ؈ کی کیفیت

رفع مسیح الی السماءکی تفسیر میں آپ نےقدیم مفسرین سے اختلاف کیا اور رفع کے مفہوم کو ابہام میں ڈال دیا۔وضاحت کرکے تسلی بخش جواب تحریر فرمائیں ۔

تفہیم القرآن جلد ا، صفحہ۴۲۱:’’پس جو چیز قرآن کی روح سے زیادہ مطا بقت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ عیسیٰ ؈ کے رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی۔‘‘
کیا یہ مسئلہ قرآنی لحاظ سے مجمل ہے؟ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں اگر قتل جسم کی تصریح ہے تو اسی ایک جملہ کے ایک جز رَفَعَہٗ میں کون سا اجمال آگیا؟بصورت دیگر انتشارِ ضمائر لازم نہ آئے گا جو معیوب ہے؟یہاں رفع جسم سے کون سا قرینہ مانع ہے جب کہ احادیث رفع جسمانی ہی روایت کر رہی ہیں تو یہاں کیوں رفع جسم مراد نہ ہو؟ پھر اجماع اُمت بھی اس پر منعقد ہوچکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ متفق علیہ مسئلے کو قرآن کی روح کے لحاظ سے مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جائے؟ پھر الفاظ بھی ایسے مؤکد کہ قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت۔

نزولِ مسیح ؈،دجّال اور یاجوج و ماجوج

نزولِ مسیح ؈، دجّال اور یاجوج ماجوج کے متعلق جو تفسیر آپ نے بیان کی ہے اور ان کی باہمی کش مکش کا جو ذکر کیا ہے، وہ ایٹمی دور کے نقشۂ جنگ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ موجودہ زمانے میں تو تیرتفنگ کے بجاے ایٹم بم سے دنیا چند منٹ میں تباہ ہوسکتی ہے۔

حضرت عیسیٰ ؈ کی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت

قرآن نے مسیح کی نسبت چار وعدے ذکر کیے ہیں ۔ چوتھا وعدہ ہے: وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ({ FR 1659 }) ( آل عمران:۵۵ ) مسیح کے متبعین اور مسیح کے کافر دونوں کے وجود کا قیامِ قیامت تک پایا جانا اس بات کو مستلزم ہے کہ مسیح کے متبعین مسیح کے اتباع پر قائم رہیں اور اتباع کے لیے مسیح کی ہدایت اور تعلیم کا قائم اور محفوظ رہنا اور پھر قیامت تک محفوظ رہنا ضروری ہے، جس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ہی قیامت تک اپنی تعلیم اور ہدایت دائمی کی رُو سے دائمی ہادی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے وجود کو گھسیڑنےکے کیا معنی؟ دوسرے اسلام کا تخالف پہلی صورت مسلمہ کے منافی معلوم ہوتا ہے۔

اہل اسلام کے نزدیک اگر مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور وہی آنے والے ہیں ، پیغمبر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی وہی اور بعد میں بھی وہی، تو اس صورت میں درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور کا کیا مطلب؟ جبکہ غلبۂ متبعینِ مسیح کا وعدہ استمرار بلا فصل کے معنوں میں قیامت کے لیے پیش کیا جاچکا ہے۔

آیت فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ({ FR 1505 }) (یونس:۹۴ (سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب خود پیغمبر اسلام بھی قرآن کی وحی کے متعلق شک میں پڑ جاتے تھے تو اس صورت میں شک کو نکالنے کے لیے آپ کو حکم ہوا کہ اہل کتاب سے آپ اپنے شک کو نکلوا لیجیے، جس سے واضح ہے کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام کو بھی شک میں ڈالنے والی چیز ہے اور اہل کتاب کی کتاب اور تعلیم ایسی چیز ہے کہ قرآن کے متعلق شک رکھنے والے کو بھی وہی دُور کرتی ہے، تو اس صورت میں بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور سے اور مسیح کے بعد آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ اور قرآن کریم کی نسبت تو یہ ہے، مگر تورات کی نسبت لکھا ہے قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ({ FR 1506 }) (آل عمران:۹۳ ( جس سے ظاہر ہے کہ توراۃ قابل استشہاد ہے اور وہ اس صورت میں کہ محفوظ ہو اور محرف و مبدل نہ ہو۔ اور یہ صورت بھی پہلی صورت پیش کردہ کی موید ثابت ہوتی ہے۔

صحابہ کرامؓ کی باہمی اُلفت و محبت

مجھے چند روز قبل فضائل صحابہ کے موضوع پر اظہار خیال کا موقع ملا۔میں نے حسب توفیق مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ({ FR 1660 }) (الفتح:۲۹ ) کی تشریح کی۔ بعد میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف تو صحابہ (رضی اللّٰہ عنہم) کی یہ صفت بیان کررہا ہے لیکن واقعات کی تصویر اس کے برعکس ہے۔جنگ جمل وصفین میں دونوں طرف اکابر صحابہ (رضی اللّٰہ عنہم) موجود تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی ایک فریق کے ہمراہ تھیں ۔ ان واقعات کی روشنی میں رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ کی صحیح توجیہ کیا ہوسکتی ہے؟ میں نے حتی الوسع اس معاملے پر غور کیا۔ بعض کتب دینیہ اور ذی علم احباب سے بھی رجوع کیا مگر کلی اطمینان نہ ہوسکا۔ آپ براہِ کرم ان واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ا رشاد قرآنی کی صحیح تأویل وتوجیہ بیان کریں جس سے یہ اشکال رفع ہوجائے۔