سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟

قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورۂ توبہ کے۔ علامہ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسول اللہؐ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآن مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو۔‘‘
دراصل سورۂ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ از راہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں ، یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں ، تاکہ تشنگی دور ہوسکے۔

قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟

قرآن کے مطالعہ کے دوران چند مقامات پر ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم تشریح و توضیح فرما کر ممنون فرمایئے:
(۱) سورۂ اعراف آیت ۲۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ مولانا مودودی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤگے۔‘‘ ’جس طرح‘ کے لفظ سے فوراً یہ مفہوم ذہن میں آتا ہے کہ جس طرح اس نے تمھیں اب، یعنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے، اسی طرح، یعنی ماؤں کے پیٹ سے، پھر پیدا کیے جاؤگے۔ جب کہ قرآن کے دیگر مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان مرچکے ہیں انھیں از سر نو پیدا نہیں کیا جائے گا، بل کہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ مثلاً سورۂ یٰسین آیت ۵۱ یہ ہے: وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ (پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے) مذکورہ بالا دونوں بیانات ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں ، جب کہ کلام الٰہی میں تضاد و اختلاف ممکن نہیں ۔
(۲) سورۂ آل عمران میں ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ اَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ لاَ خَلاَقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلاَ یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo (آل عمران: ۷۷)
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا، بل کہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نہ مجرموں کی طرف دیکھے گا نہ ان سے بات کرے گا تو ان سے حساب کیسے لے گا؟ حساب لینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو مجرموں سے مخاطب ہونا ہی پڑے گا۔

قصصِ یوسف ؑ و سلیمانؑ کے بعض اشکالات

آج کل مولانا مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن میرے زیر مطالعہ ہے۔ مطالعے کے دوران سورۂ یوسف اور سورۂ نمل سے متعلق کچھ سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان کا تحقیقی، مدلل اور تشفی بخش جواب مرحمت فرمایے۔ نوازش ہوگی۔
(۱) سورۂ یوسف کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: ’’جب یوسف اپنے بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں خود پیالہ رکھوادیا اور پھر چوری کے الزام میں اسے اپنے پاس روک لیا۔‘‘ کیا یہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں ہوا؟ کیا ایک شخص نبی ہوتے ہوئے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اس بات کو سر سری طور پر نہ لیں ۔ کیوں کہ ہم ایک نبی پر ایمان ہی اس بنیاد پر لاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔
(۲) سورۂ نمل میں ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کا شاہی تخت، اس وقت جب وہ اپنے محل میں موجود نہیں تھی، اٹھوا کر اپنے یہاں منگوالیا۔‘‘ اس فعل کو آپ کیوں کر جائز ٹھہرائیں گے؟ بھلا بتایے، اگر آپ اپنے گھر میں موجود نہ ہوں اور کوئی شخص آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے گھر سے آپ کا سامان اٹھا لے جائے تو آپ اس عمل کو کیا کہیں گے؟

کیا غور و تدبر کا تعلق دل سے ہے؟

سورۂ محمد کی آیت نمبر ۲۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْٰانَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور و تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘
عام طور پر غور و فکر اور تدبر کا تعلق دماغ سے سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس آیت مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر دلوں پر قفل پڑے ہوں تو انسان قرآن مجید پر غور و فکر اور تدبر نہیں کرپاتا۔ از راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر کے ضمن میں انسانی دل کس طرح اپنا کردار نبھاتا ہے؟

ایک آیت کا مفہوم

سورۂ الدہر کی ایک آیت ہے:
نَحْنُ خَلَقْنٰـہُمْ وَ شَدَدْنَـآ اَسْرَہُمْج وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَـآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاًo (آیت: ۲۸)
’’ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں ، اور ہم جب چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں ۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:
’’اصل الفاظ ہیں : اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَـآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلاً۔ اس فقرے کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انھیں ہلاک کرکے انہی کی جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لاسکتے ہیں ، جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کرسکتے ہیں ، یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضاء بنا سکتے ہیں اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کردیں ، کسی کو لقوہ مار جائے اور کوئی کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہوکر اپاہج ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں پیدا کرسکتے ہیں ۔‘‘ (۱)
مولانا مودودیؒ نے اپنی تشریح میں آیت کے جو تیسرے معنیٰ بتائے ہیں ، کیا اس سے برادران ِ وطن کے ’پنر جنم‘ کے عقیدے کا اثبات نہیں ہوتا؟

اسماء حسنیٰ

ایک حدیث میں ہے کہ ’’اللہ کے ننانوے نام ہیں ۔ وہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتاہے۔‘‘ اس کی روشنی میں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) کیا رسول اللہ ﷺ نے ان ناموں کی تعیین کی ہے؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہیں ؟
(۲) ترمذی، ابن ماجہ اور عسقلانی نے جو نام بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ان میں سے کس کی فہرست مستند ہے؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شخص قرآن سے اللہ کے ننانوے سے زائد نام نکال سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد نام ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔

غیر مسلموں کو قرآن پاک دینے کا مسئلہ

سیرت کی کتابوں میں یہ مشہور واقعہ درج ہے کہ جب حضرت عمرؓ قبول اسلام سے قبل اپنی بہن بہنوئی کے ہاں گئے اور ان سے مار پیٹ کرنے کے بعد اپنی بہن سے صحیفہ پڑھنے کی درخواست کی تو بہن نے کہا کہ آپ شرک کی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہیں ، اس لیے غسل کرنے کے بعد ہی اس صحیفے کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ۔ چنانچہ انھوں نے نہا دھوکر سورۂ طٰہٰ کی تلاوت کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو قرآن کریم کا نسخہ نہیں دینا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم قرآن پاک کسی مشرک کے ہاتھ میں دیتے ہیں تو کیا گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اس کو اگر ہم غسل کرکے ہاتھ لگانے کی ہدایت دیں تو کیا یقینی ہے کہ وہ ہماری بات پر عمل کرے گا؟ اگر ہم انھیں قرآن پاک نہ دیں تو پھر قرآن کا پیغام ان تک کیوں کر پہنچایا جائے؟ آج کل جماعت اسلامی ہند اکثر غیر مسلموں میں قرآن کریم کے نسخے تقسیم کر رہی ہے۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

سورۂ فاتحہ میں آیتوں کی تعداد

قرآن مجید کے آغاز میں سورۂ فاتحہ میں کل کتنی آیتیں ہیں ؟ اس سلسلے میں سعودی عرب سے طبع ہونے والے نسخوں اور ہندوستان میں طبع ہونے والے نسخوں میں فرق نظر آتا ہے۔ اسی کو موضوع بحث بنا کر قادیانی مبلغین مسلم نوجوانوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ سے التماس ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔

سورۃ النجم کا زمانۂ نزول

سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکرہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت (آیات ۷تا۱۰) اور دوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸)۔ ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔