نبی کریمﷺ کے اُمّی ہونے کا صحیح مفہوم

ترجمان القرآن ماہ اکتوبر۱۹۶۰ء میں سورۂ العنکبوت کے تفسیری حاشیے نمبر۹۱ کے مطالعے کے دوران میں چند باتیں ذہن میں اُبھریں جو حاضر خدمت ہیں ۔اس سیاق وسباق میں لفظ’’اُمّی‘‘کا مطلب جو کچھ میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ نبیﷺ بعثت سے پہلے اُمّی اور ناخواندہ تھے۔لیکن بعد میں آپ کے خواندہ ہوجانے اور لکھ پڑھ سکنے کی نفی نہیں ۔ یہ البتہ یقیناً ممکن ہے کہ نبوت کے بعد آپ کے خواندہ بن جانے میں انسانی کوشش یا اکتساب کو دخل نہ ہو بلکہ معجزانہ طور پر اﷲ تعالیٰ نے خود معلم بن کر آپ کو پڑھنا لکھنا سکھادیا ہو۔ میری اس تشریح کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟میرے خیال میں تو الفاظ میں بڑی گنجائش ہے جس سے میرے مطلب کی تائید ہوتی ہے۔

کیا رسول صرف مصلح تھے؟

میرےایک رشتہ دار جو لا مذہب ہوچکے ہیں ، رسولﷺ کو ایک مصلح(reformer) سے زیادہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ البتہ انھیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں ۔وضاحت فرمائیں ۔

پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا

اپریل۱۹۷۶ء کے ترجمان القرآن میں آپ کا جو مقالہ بعنوان ’’اسلام کس چیز کا علم بردار ہے؟‘‘ چھپا ہے۔اس کے جملے ’’پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد خدائی اختیارات کا حامل ہونا ہے؟ یا بشریت سے ماورا ہونا؟ معترضین نے یہ نکتہ برآمد کیا ہے کہ مافوق البشر کا مطلب عام بشر سے فائق ہونا ہے اور پیغمبر اس معاملے میں فائق ہی ہوتے ہیں ۔

رسول کی بشری کمزوریوں سے مراد

مذکورہ مقالے پر دوسرا اعتراض اس پر ہے کہ مقالہ نویس نے پیغمبرﷺ کو بشری کمزوریوں سے مبرا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں ۔ بشری کمزوریوں سے مراد بشریت کے لوازمات ہیں یا اور کچھ مراد ہے؟

پیغمبر کے مشن کی کامیابی سے مراد

آپ نےلکھا ہے کہ ’’بعض پیغمبروں کا مشن ناکام ہوگیا۔‘‘ یہ اندازِ بیان انبیا کے شایانِ شان نہیں ہے۔ معترضین کا زیادہ تر زور اس پر تھا کہ چاہے نیت بخیر ہو، مگر اندازِ بیان گستاخانہ ہے۔

ابتداے نزول وحی کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ کی گھبراہٹ

بخاری شریف کی تیسری حدیث میں نزول وحی اور رسول اللّٰہ ﷺ کی کیفیات کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آں حضرت ﷺ پر اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ حضور ﷺ گھبراے کیوں تھے؟ یہ بات کہ یہ رسالت کی ذمہ داریوں کے احساس کا نتیجہ تھا، دل کو مطمئن نہیں کرتی، ورنہ، وَرَقہ کے پاس لے جانے کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ بعض لوگوں کا یہ اشتباہ کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر اس وقت اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا،کچھ بامعنی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو جن کے پاس آپ یہ معاملہ لے کر گئے تھے کیا وہ ان کیفیات کے پس منظر کو حضور ﷺ سے زیادہ جانتے تھے۔ ورقہ کے یہ الفاظ ’’ھٰذا النَّامُوسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوسٰی‘‘ ({ FR 1790 }) اس امر کے مؤید ہیں کہ واقعی حضورﷺ پراپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد صورتِ حال مزید مخدوش ہوجاتی ہے۔ صحیح صورتِ حال کیا ہے؟

معراج کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ کو کیا تعلیمات دی گئی تھیں ؟

واقعہ اسرا و معراج کے متعلق جناب کے حالیہ مضمون کو پڑھ کر ذہن میں مندرجہ ذیل خیالات پیدا ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ جناب اس سلسلے میں مناسب راہ نمائی فرمائیں گے۔
جناب نے اس واقعہ کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد آں حضرتﷺ کو کائنات کے باطنی نظام کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اُن نشانیوں کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا جنھیں قرآن حکیم اٰیٰتِ رَبِّہِ اِلْکُبْریٰ({ FR 2569 }) (النجم:۱۸)کہتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتﷺ کو اپنی بارگاہ میں طلب کرکے اسلامی معاشرے کے قیام کے بارے میں چند بنیادی ہدایات دینا چاہتا تھا۔
بلاشبہہ قرآن حکیم سے معراج کے یہ دونوں مقاصد ثابت ہیں ۔ مگر قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اگر پہلا مقصد آں حضرتﷺ کو عظیم نشانیاں دکھانا ہی تھا تو یہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے تک حاصل ہوچکا تھا۔ حضورﷺدوسرے ملائکہ کے علاوہ حضرت جبریل امینؑ کو دوبار ان کی اصل صورت میں ملاحظہ کرچکے تھے، انبیاے کرام سے تعارف ہوگیا تھا، جزا و سزا کی کئی صورتیں دکھائی جا چکی تھیں ، بیت المعمور، جنت الماویٰ اور دوزخ جیسے مقامات کا مشاہدہ بھی مکمل ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس غرض کے لیے اب عالم شہادت کی سرحد کو عبور کرکے عالم غیب میں قدم آگے بڑھانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جہاں تک دوسرے مقصد کا تعلق ہے وہ بارگاہِ جلال میں حاضر ہوئے بغیر بھی پورا ہوسکتا تھا۔ جب سارا قرآن سرزمین عرب ہی میں آں حضرتؐ پر نازل ہوسکتا تھا تو ان ہدایات کے نازل ہونے میں کیا چیز مانع تھی۔
دراصل ان دونوں مقاصد کے علاوہ معراج النبی کا ایک تیسرا مقصد بھی قرآن و حدیث ہی سے ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرت ﷺ کو مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا کر ان مخصوص اذواق و مواجید اور اسرار و رموز کی تعلیم دینا چاہتا تھا جو الفاظ میں نہیں بیان کیے جاسکتے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى({ FR 2161 }) (النجم:۱۰) کے الفاظ اسی مقصد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جو کچھ وحی کیا گیا اسے الفاظ میں کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ ہم اس مخصوص وحی کو وحی غیر متلو کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں اور اس میں ان علوم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو حضرت جبریل امینؑ کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اسی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی صاحبِ دل نے کہا تھا: ع
سِرّما اَوحیٰ نہ گنجد در ضمیرِ جبرئیل کشفِ اسرارِ لدُّنی کے کندامُّ الکتاب ({ FR 2159 })
یہ ظاہر ہے کہ وحیِ جَلی اور اس مخصوص وحی کی تعلیم میں نہ تو کوئی تضاد ہوسکتا ہے اور نہ وِحی جَلی پر وحیِ خَفی کو ترجیح دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتؐ کے ان مخصوص اذواق اور احوال کی توفیق جزوی طور پر آں حضرتؐ کے بعض امتیوں کو نصیب کر دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ سخی اگر سخاوت نہ کرے تو وہ سخی نہیں کہلا سکتا۔ حضرت ابوبکرؓ کے سینے میں ایک رازِ الٰہی کا راسخ ہو جانا اور اسی کی بنا پر آپ کا دیگر اصحابِ رسول پر فضیلت حاصل کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جس چیز کو اللّٰہ کے رسول نے ’’راز‘‘ قرار دیا ہو اسے وہ کسی اور شے پر محمول کرے۔
جہاں تک معراج کے موقع پر دیدارِ الٰہی کے مسئلے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ لوگ اس بارے میں فضول بحثوں میں اُلجھ گئے ہیں ۔ جب یہ ثابت ہے کہ عالم آخرت میں مومنین دیدار الٰہی کریں گے تو عالمِ غیب میں آں حضرتؐ کے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حضرت عائشہؓ لَاتُدْرکُہُ الْاَبْصَارُ({ FR 2570 }) (الانعام:۱۰۳) کے الفاظ سے بچشم سردیدارِ الٰہی کی نفی فرما رہی ہیں جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب یا عالم آخرت سے۔ جناب خود بھی تفہیم القرآن میں وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دیدار کا فعل آنکھ نامی ایک آ لے ہی سے ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے قلب یا قلب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی دیدار کی صورت پیدا کر دینے پر قادر ہے: ع
ایں خاک بے ادب رانسبت باوچہ باشد اماچو او نوازد کس رازباں نہ باشد({ FR 2160 })

معراج رات کو ہوئی تھی یا دن کو؟

پچھلے دنوں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف الخیال لوگوں میں مقصد کی یکسانیت اور لگن تھی۔ درس قرآن اور نماز باجماعت کا انتظام تھا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے علما حضرات وہاں بھی فروعی مذہبی اختلافات میں مبتلا تھے۔ ہماری بیرک میں تین الگ الگ جماعتیں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث حضرات کراتے تھے۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ علما حضرات کو مل کر ایک جماعت پر رضا مند کیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے ایک دیوبندی عالم کے پاس گئے۔ انھیں میرے متعلق علم تھا کہ یہ جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ ابھی تمہیداًکچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ انھوں نے آپ کے بارے میں اعتراضات شروع کر دیے کہ مولانا مودودی صاحب نئی نئی باتیں نکال لاتے ہیں ، کسی پچھلے ترجمان میں مولانا نے لکھا ہے کہ واقعۂ معراج دن کی پوری روشنی میں رُونما ہوا تھا، حالانکہ قرآن کے بیان کے مطابق یہ واقعہ رات کے کسی حصے میں پیش آیا اور حدیث سے بھی ثابت ہے کہ (واقعۂ) معراج عشا اور فجر کے درمیان ہوا تھا،میں نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ({ FR 2278 }) والا مقصد تو باتوں ہی میں ختم ہوگیا اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔
جیل سے واپسی پر میں نے ترجمان کے پچھلے پرچے دیکھے۔ جنوری ۱۹۷۷ء کے شمارے میں صفحہ۱۰ پر آپ کی تحریر دیکھی:
’’… رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ مشاہدہ اندھیرے میں ، یا مراقبے کی حالت میں ، یا خواب میں ، یا نیم بے داری کی حالت میں نہیں ہوا تھا، بلکہ صبح روشن طلوع ہوچکی تھی، آپ پوری طرح بے دار تھے، کھلی فضا میں اور دن کی پوری روشنی میں اپنی آنکھوں سے یہ منظر ٹھیک اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح کوئی شخص دنیا کے دوسرے مناظر دیکھتا ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا اعتراض اسی عبارت پر تھا۔ بہتر ہو کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں ۔

رسول اللّٰہ ﷺ کا شَقِّ صدر

سنا گیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا تھا اور اس کو تمام آلائشوں سے پاک کیا گیا تھا،تاکہ نبوت کے تقاضے کو پورا کرسکیں اور معصومیت کی صفت پیدا ہوجائے۔د وسرے لفظوں میں آپ کا دل زیادہ روشن ہوجائے، اچھے اور پاکیزہ خیالات دل میں آئیں اور گناہ کے خیالات نہ آنے پائیں ۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

عبد المطلب کے بعد آپ کی پرورش

محمود عباسی صاحب نے تحقیق مزید کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں ۔ براہ کرم اس امر پر روشنی ڈالیے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے۔ اُلجھن یہ ہے کہ تمام سیرت نگار تو آں حضورؐ کے دادا کی وفات کے بعد ابوطالب کو حضورﷺ کا سرپرست تسلیم کرتے ہیں ، مگر محمود عباسی کچھ اور ہی داستان بیان کر رہے ہیں ۔
صفحہ۱۲۵۔ عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے نو بیٹے زندہ تھے۔ جن میں سب سے بڑے زبیر تھے، وہی قریش کے دستور کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے اور انھی کو عبدالمطلب نے اپنا وصی بھی مقرر کیا تھا۔
وَالزُّبَیرُ۔ وَکَانَ شَاعِراً شَرِیفاً وَ إِ لَیہِ أَوصٰی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ({ FR 1702 })
صفحہ۱۲۵۔ زبیر و ابوطالب اور عبداللّٰہ والد ماجد آں حضرت ﷺ یہ تینوں ایک ماں سے حقیقی بھائی تھے۔
صفحہ ۱۲۵۔۱۲۵۶۔ قدیم ترین مؤرخ ابوجعفر محمد بن حبیب متوفی۲۴۵ھ مؤلف کتاب المحبَّر نے الحکام من قریش ثم من بنی ھاشم کے عنوان کے تحت قریش کے تمام خاندانوں میں سے جو لوگ اپنے وقت میں سردار اور حاکم رہے ان کی فہرست درج کی ہے۔ بنی ہاشم میں عبدالمطلب کے بعد زبیر بن عبدالمطلب ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی ابو طالب کے… نام درج کیے ہیں ۔
صفحہ۱۲۶۔ عبدالمطلب کو اپنے اس نیک صفات اور پاکیزہ خصلت فرزند (زبیر) پر فخر و ناز ہونا بجا تھا۔ مرتے وقت انھی کو جانشین کیا۔
صفحہ۱۲۶-۱۲۷۔ حلف الفضول… وہ معاہدہ و حلف ہے جو قریشی خاندانوں اور قبیلوں میں … انھی کی تحریک پر آپس میں عبداللّٰہ بن جدعان کے گھر بیٹھ کر کیا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید)
آں حضرت ﷺ اس موقع پر اپنے چچا (زبیر) کے ساتھ موجود تھے… سن شریف اس وقت آں حضور کا بروایت مختلفہ اٹھارہ سے بیس برس کا بتایا گیا ہے۔
صفحہ۱۲۸۔ اپنے دادا کے انتقال کے بعد آں حضورؐ اپنے ان ہی چچا زبیر بن عبدالمطلب کی کفالت میں رہے، انھوں نے اور ان کی زوجہ عاتکہ بنت ابی وہب بن عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم نے اپنے بچوں سے زیادہ محبت و شفقت سے آپ کی پرورش کی۔
صفحہ ۱۳۲۔ آپ اس عمر کے تھے کہ زبیر بن عبدالمطلب کی وفات کے بعد کسی دوسرے چچا اور رشتے دار کی کفالت سے مستغنی ہوچکے تھے۔