پیغمبر کے مشن کی کامیابی سے مراد

آپ نےلکھا ہے کہ ’’بعض پیغمبروں کا مشن ناکام ہوگیا۔‘‘ یہ اندازِ بیان انبیا کے شایانِ شان نہیں ہے۔ معترضین کا زیادہ تر زور اس پر تھا کہ چاہے نیت بخیر ہو، مگر اندازِ بیان گستاخانہ ہے۔
جواب

]یہ[ اعتراض بھی سلسلۂ کلام کو نظر انداز کرکے صرف ایک لفظ کے استعمال پر کیا گیا ہے۔ سلسلۂ کلام یہ ہے کہ نبی کا کام ایمان لانے والوں کو انفرادی اور اجتماعی تربیت دے کر ایک صحیح اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے عملاً تیار کرنا اور ان کو منظم کرکے ایک ایسی جماعت بنا دینا ہے جو دنیا میں خدا کے دین کے بالفعل قائم کرنے کی جدوجہد کرے یہاں تک کہ خدا کا کلمہ بلند ہو جائے اور دوسرے کلمے پست ہوکر رہ جائیں ۔ اس کے بعد یہ عبارت لکھی گئی ہے: ’’ضروری نہیں ہے کہ سب نبی اپنے اس مشن کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچانے میں کامیاب ہی ہوگئے ہوں ۔ بہت سے انبیا ایسے ہیں جو اپنے کسی قصور کی بنا پر نہیں بلکہ متعصب لوگوں کی مزاحمت اور حالات کی نامساعدت کے باعث اس میں ناکام ہوگئے۔‘‘ ({ FR 2158 })
اس عبارت میں لفظ ناکام کے استعمال کو گستاخی کہنا آخر ادب و احترام کی کون سی قسم ہے؟ یہ مبالغہ آمیزیاں اگر اسی شان سے بڑھتی رہیں تو بعید نہیں کہ کل ہر وہ شخص گستاخ ہو جو کہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ احد میں زخمی ہوگئے تھے، یا آپ کسی وقت بیمار ہوگئے تھے۔ کسی واقعہ کے واقعہ ہونے سے اگر انکار نہیں ہے تو اس کو انھی الفاظ میں بیان کیا جائے گا جو زبان میں معروف ہیں ۔ جو حضرات اسے گستاخی سمجھتے ہیں وہ اپنی راے کے مختار ہیں ، مگر دوسروں پر وہ اس راے کو کیوں مسلط کرتے ہیں ؟
(ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء)