کیا روز قیامت تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے؟

ایک تعزیتی مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ قیامت کے دن سب چیزیں ہلاک ہوجائیں گی اور فرشتے بھی ان میں شامل ہیں ۔ انھوں نے سورۂ قصص کی آخری آیت کا حوالہ دیا۔ میں نے آخرت کے بارے میں پہلے بھی کچھ پڑھا تھا اور اس واقعے کے بعد بھی ’مناظر قیامت‘ از سید قطب شہید، ’آخرت‘ از بنت الاسلام اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا مگر جواب نہیں مل سکا۔ ادھر قرآن کی دو آیات (سورۂ زمر کی آیت ۶۸ اور سورۂ نمل کی آیت ۸۷ )نے شش و پنج میں ڈال دیا، جہاں تذکرہ ہے کہ روز قیامت تمام مخلوق بے ہوش ہوکر گر پڑے گی (اور مرجائے گی، جیسا کہ تفہیم القرآن اور بیان القرآن از علامہ تھانویؒ میں ہے) سوائے چند کے۔ ہمارے کشمیری مفسر مولانا یوسف شاہؒ نے لکھا ہے کہ ’سوائے چند‘ سے مراد حدیث کے مطابق چار بڑے فرشتے یعنی جبرئیل، میکائیل، عزرائیل اور اسرافیل ہیں ۔ لیکن سورۂ قصص کی آخری آیت میں ہر شے کے ہلاک ہونے کا تذکرہ ہے، تو پھر تطبیق کیسے ہو؟ میں نے سید قطب کی ’مناظر قیامت‘ کا مطالعہ کیا کہ شاید اس میں سورۂ قصص کی مذکورہ آیت کا کہیں ذکر ہو، مگر اس میں اس آیت کا کہیں تذکرہ نہیں ۔ گویا یہ آخرت کے بارے میں ہے ہی نہیں ۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر یہ آیت آخرت کے بارے میں ہوتی تو سید قطب اس کا حوالہ کیوں نہ دیتے؟ برائے مہربانی ایک عالم ہونے کے ناطے آپ میری یہ ذہنی خلش دور فرمائیں ۔
اس کے علاوہ قیامت کے فیصلے کے بعد موت کے فرشتے حضرت عزرائیل کو اہل بہشت اور اہل دوزخ کے سامنے لاکر اس کے ذبح کرنے کے متعلق ایک خطیب سے سنا ہے، جو کہتے تھے کہ اس ذبح سے جنتیوں کو یہ خوش خبری دینا مراد ہے کہ اب آپ کو جنت سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح جہنمیوں کو یہ بری خبر دینا کہ اس جہنم سے اب تم کو کوئی نہیں چھڑا سکتا، کیوں کہ موت کا فرشتہ ذبح ہوا ہے۔ اس کی اصل کیا ہے؟ اس کی وضاحت چاہتا ہوں ۔

جنت کا محل وقوع

آپ نے ’’ترجمان القرآن‘‘میں لکھا ہے کہ قیامت کے بعد یہ زمین جنت بنادی جائے گی، یعنی جنت آئندہ بننے والی ہے،اب کہیں موجود نہیں ہے،نہ پہلے سے بنی ہوئی ہوئی ہے۔براہ ِکرم اس الزام کی مختصر توضیح فرمادیں ، تاکہ حقیقت حال معلوم ہوسکے۔

کیا روز قیامت تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے؟

ایک تعزیتی مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ قیامت کے دن سب چیزیں ہلاک ہوجائیں گی اور فرشتے بھی ان میں شامل ہیں ۔ انھوں نے سورۂ قصص کی آخری آیت کا حوالہ دیا۔ میں نے آخرت کے بارے میں پہلے بھی کچھ پڑھا تھا اور اس واقعے کے بعد بھی ’مناظر قیامت‘ از سید قطب شہید، ’آخرت‘ از بنت الاسلام اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا مگر جواب نہیں مل سکا۔ ادھر قرآن کی دو آیات (سورۂ زمر کی آیت ۶۸ اور سورۂ نمل کی آیت ۸۷ )نے شش و پنج میں ڈال دیا، جہاں تذکرہ ہے کہ روز قیامت تمام مخلوق بے ہوش ہوکر گر پڑے گی (اور مرجائے گی، جیسا کہ تفہیم القرآن اور بیان القرآن از علامہ تھانویؒ میں ہے) سوائے چند کے۔ ہمارے کشمیری مفسر مولانا یوسف شاہؒ نے لکھا ہے کہ ’سوائے چند‘ سے مراد حدیث کے مطابق چار بڑے فرشتے یعنی جبرئیل، میکائیل، عزرائیل اور اسرافیل ہیں ۔ لیکن سورۂ قصص کی آخری آیت میں ہر شے کے ہلاک ہونے کا تذکرہ ہے، تو پھر تطبیق کیسے ہو؟ میں نے سید قطب کی ’مناظر قیامت‘ کا مطالعہ کیا کہ شاید اس میں سورۂ قصص کی مذکورہ آیت کا کہیں ذکر ہو، مگر اس میں اس آیت کا کہیں تذکرہ نہیں ۔ گویا یہ آخرت کے بارے میں ہے ہی نہیں ۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر یہ آیت آخرت کے بارے میں ہوتی تو سید قطب اس کا حوالہ کیوں نہ دیتے؟ برائے مہربانی ایک عالم ہونے کے ناطے آپ میری یہ ذہنی خلش دور فرمائیں ۔
اس کے علاوہ قیامت کے فیصلے کے بعد موت کے فرشتے حضرت عزرائیل کو اہل بہشت اور اہل دوزخ کے سامنے لاکر اس کے ذبح کرنے کے متعلق ایک خطیب سے سنا ہے، جو کہتے تھے کہ اس ذبح سے جنتیوں کو یہ خوش خبری دینا مراد ہے کہ اب آپ کو جنت سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح جہنمیوں کو یہ بری خبر دینا کہ اس جہنم سے اب تم کو کوئی نہیں چھڑا سکتا، کیوں کہ موت کا فرشتہ ذبح ہوا ہے۔ اس کی اصل کیا ہے؟ اس کی وضاحت چاہتا ہوں ۔