قربانی کے بعض مسائل

قربانی کے بارے میں بسا اوقات طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ، جن کی بنا پر ذہن الجھن کا شکار ہوجاتا ہے، بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں :
۱- کیا کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؟ بعض حضرات اس پر اشکال وارد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی میت کے نام سے قربانی جائز نہیں ہے۔
۲- بعض حضرات اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں ، ماں باپ اور دیگر اعز ّہ کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ کئی چھوٹے جانور ذبح کرتے ہیں یا بڑے جانوروں میں کئی حصے لیتے ہیں ۔ بیوی اگر صاحب نصاب ہو تو کیا اس کا الگ سے قربانی کروانا ضروری ہے؟
۳- بعض حضرات سے یہ بھی سننے کو ملا کہ جانور کا خصی کرانا اس میں عیب پیدا کرتا ہے۔ حدیث میں عیب دار جانور کی قربانی سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے خصی کیے گئے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔

عقیقے کا وقت

میری پوتی کی پیدائش کے بعد اس کا عقیقہ نہیں ہوسکا، یہاں تک کہ اب اس کی عمر تین سال ہونے کو ہے۔ کیا اب اس کا عقیقہ کرایا جاسکتا ہے؟ یہ بھی واضح فرمادیں کہ عقیقے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر کسی بچے کا عقیقہ نہ ہوسکے تو کیا اس کے والدین یا جن کے زیر کفالت وہ ہو، ان پر گناہ ہوگا۔

کیا ایک قربانی گھر کے تمام افراد کے لیے کافی ہے؟

اگر ایک گھر میں کئی صاحب ِ نصاب افراد ہوں ، مثلاً شوہر بھی صاحب نصاب ہو، بیوی کے پاس اتنے زیورات ہوں جو نصاب تک پہنچتے ہیں ، ان کے بیٹے بھی ملازمت یا تجارت کی وجہ سے اتنا کما رہے ہوں کہ وہ صاحب نصاب ہوں ، اگرچہ ان کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اور وہ والدین کے ساتھ رہتے ہوں ۔ تو کیا ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے یا گھر میں صرف ایک قربانی کافی ہے؟

گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اوربتائیں کہ کیا واقعی احادیث میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے ؟

گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

مرض سے شفایابی پرقربانی

ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طورصدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’ کسی مناسبت سے، مثلاً مرض سے شفایابی پرجانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیاجاسکتا ہے۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں  معلوم ہوتی ۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کوبہ طور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں ، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کوبہ طور تقرب یابہ غرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتاجا رہاہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اورخون بہانے کو کارثواب سمجھتا ہے اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردیتا ہے۔
جہاں  تک مجھے معلوم ہے کہ بہ غرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے: ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں ۔ الّا یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذرمان لے تو بہ حیثیت نذر درست ہے، کیوں کہ کسی بھی عمل صالح کوبہ شکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پربہ طور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں  ہے اور تعبّدی امور میں قیا س درست نہیں ۔

جبری امتناع کی صورت میں مباحات(گائے کی قربانی ) کا وجوب

ہمارے مقامی خطیب صاحب نے ایک وعظ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی ملک میں جبراً گائو کشی بند کردی جائے تو اس صورت میں ملک کے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکم امتناعی کی خلاف ورزی کریں ۔یہ فتویٰ مجھے کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔آخر شریعت نے جن چیزوں کو حلال ٹھیرایا ہے ،وہ بس حلال ہی تو ہیں ،واجب کیسے ہوگئیں ؟مثلاًاونٹ کا گوشت کھانا حلال ہے،لیکن اگر کوئی نہ کھائے تو گناہ گار نہیں ہے۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حلت کے معنی وجوب کے نہیں ہیں ۔پھر یہ مولوی صاحب فرضیت کا فتویٰ کہاں سے دیتے ہیں ؟آپ فرمایئے کہ مذکورہ بالا فتویٰ کی حیثیت کیا ہے؟