خطبۂ نکاح میں پڑھی جانے والی آیتیں

خطبۂ نکاح میں جو تین آیتیں (سورہ النساء: کی پہلی آیت، سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲ اور سورۂ الاحزاب کی سترویں اور اکہترویں آیتیں ) پڑھی جاتی ہیں ، کیا ان کا تعلق نکاح سے نہیں ہے؟ یہاں ایک امام صاحب نے جمعے کے خطاب میں یہ بات کہی تو عجیب سی لگی۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرما دیں ۔

ولیمہ کیسا ہو؟

شریعت میں نکاح کے موقع پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس موقع پر آدمی بکرا ذبح کرے اور گوشت کھلائے۔ اگر کسی شخص کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہو اور وہ اتنی وسعت نہ رکھتا ہو کہ بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کرسکے تو کیا محض ٹی پارٹی کردینے سے اللہ کے رسول ﷺ کے حکمِ ولیمہ کا منشا پورا ہوجائے گا؟

عورت کا حق مہر

ایک شخص اپنے اکاؤنٹ میں سے کچھ روپے نکالتا ہے اور اپنی بیوی سے یہ کہہ کر کہ اس میں سے کچھ روپے تمھارے مہر کے ہیں ، وہ سارے روپے اپنے بڑے بھائی کو تجارت کے لیے دے دیتا ہے۔ بھائی نے وہ روپے کبھی واپس نہیں کیے اور بیوی کو وہ روپے کبھی واپس نہیں ملے۔ کیا یہ کہہ دینے سے کہ اس میں تمھارے مہر کے روپے بھی تھے، مہر کی ادائیگی ہوگئی، جب کہ اس بات کو، ۱۷، ۱۸ سال ہوگئے ہیں ۔ یہ بھی بتائیں کہ اگر اب شوہر وہ روپے واپس کرتا ہے تو کیا وہ اسی وقت کے حساب سے واپس کرے گا جس وقت مہر طے کیا گیا تھا یا موجودہ زمانے کے حساب سے؟

جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ’اسلامی خاندان‘ کے نام سے ایک مجموعۂ مقالات شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ص ۵۲ پر یہ حدیث درج ہے:
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو اچھی لگی۔ آپؐ اسی وقت زوجۂ مطہرہ حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس دوسری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپؐ نے تنہائی حاصل کی اور اپنی ضرورت پوری کی، پھر فرمایا: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو بھلی لگے، اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے، کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘
اس حدیث کو پڑھ کر میں سخت پریشانی اور الجھن میں پڑگیا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالی اور اتنی دیر تک ڈالی کہ وہ ان کو اچھی لگی۔ کیا واقعی پیغمبر غیر محرم عورت پر نگاہ جماتے تھے؟ کیا واقعی پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دے اور کہے کہ اگر کوئی عورت تم دیکھو اور وہ بھلی لگے تو فوراً اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ اگرکوئی مرد کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہو تو وہ کہاں جائے؟ اس حدیث سے یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اس وقت عورتیں بے پردہ رہتی تھیں یا ہوسکتا ہے کہ یہ احکامِ پردہ سے پہلے کا واقعہ ہو۔
میری اس الجھن کو رفع فرمائیں ۔ عنایت ہوگی۔

اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہ ہو

ایک لڑکی کی شادی کو دو سال ہوگئے ہیں ۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ زندہ ہیں ۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہ ہوئے تو لڑکی کی ماں کے بہ اصرار پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ اس کا شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے۔ اس عرصے میں لڑکے نے کافی علاج کرایا، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ لڑکی اب بھی شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار ہے، لیکن اس کی ماں خلع کروانا چاہتی ہے۔
اس مسئلے میں بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ اگر کوئی مرد جنسی تعلق کے قابل نہ ہو تو کیا زوجین کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی؟ اگر اس صورت میں بھی دونوں میاں بیوی ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اس کی گنجائش ہے؟ شریعت میں اس مسئلے کے بارے میں کیا احکام ہیں ؟ براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں ، تاکہ دونوں خاندانوں میں تنازع نہ ہو اور خیر کا پہلو نکل آئے۔

طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں

زوجین میں اختلاف اور تنازع ہونے کے بعد بیوی شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہوگئے۔ اس عرصے میں اس نے کوئی ربط و ضبط رکھا نہ شوہر کے گھر آئی۔ کچھ عرصہ پہلے چھے مقامی حضرات نے درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہی۔ وہ شوہر کے گھر اکٹھا ہوئے اور وہاں اس کی موجودگی میں موبائل سے اس کی بیوی سے رابطہ کیا گیا، اس کو کافی سمجھایا بجھایا گیا، مگر وہ آنے کے لیے تیار نہ ہوئی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ بالآخر اسی مجلس میں شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ اس وقت موبائل آن تھا۔ طلاق کے الفاظ سن کر بیوی نے ’بہت اچھا‘ کہا، جسے وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ وہیں طے پایا کہ دوران ِ عدت لڑکی کو ہر ماہ تین ہزار روپے بھیجے جائیں ۔ چنانچہ لڑکی کے کپڑے وغیرہ ایک اٹیچی میں رکھ کر اور عدت کے ایک ماہ کا خرچ تین ہزار روپے بھیج دیے گئے، جسے لڑکی والوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے ماہ بھی تین ہزار روپے بھیجے گئے، جو قبول کرلیے گئے۔ اب ڈھائی ماہ بعد لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے طلاق سنی ہی نہیں ۔
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟

نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت یا اطلاع

براہ کرم ایک مسئلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں :
ایک جوڑے (میاں بیوی) کے درمیان کئی سال سے تعلقات خراب چل رہے ہیں ۔ تعلقات کی درستی کے لیے دونوں کے متعلقین کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ بیوی شوہر کی رضا مندی سے بہ سلسلۂ ملازمت بیرون ملک مقیم ہے، جہاں شوہر صاحب بھی کئی مرتبہ گئے ہیں اور چند ماہ قیام بھی کیا ہے۔ دونوں کے درمیان فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے روزانہ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن اچانک شوہر نے خاموشی کے ساتھ نکاح ثانی کرلیا۔ اس کی اطلاع نہ پہلی بیوی کو دی نہ اس کے ولی کو۔ ولی کو عین نکاح کے وقت پتا چلا تو اس نے نکاح کی مجلس میں پہنچ کر اس کو رکوانا چاہا۔ اس نے کہا کہ نکاح ثانی سے پہلے شوہر کو کم از کم اس کی اطلاع پہلی بیوی کو کرنی چاہیے۔ مگر نکاح خواں مولانا صاحب نے فرمایا کہ شریعت میں نکاح ثانی کے لیے شوہر کو اپنی پہلی بیوی کو اطلاع دینے کی قید نہیں رکھی گئی ہے، یہاں تک کہ اخلاقاًبھی اسے بتانا ضروری نہیں ہے۔
بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا پہلی بیوی کو پوری طرح اندھیرے میں رکھ کر نکاح ثانی کرلینا شرعاً اور اخلاقاً درست ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نکاح ثانی کے لیے کیا شرائط، ضوابط اور آداب ہیں ؟

شادی کے بعد بیوی کی کفالت

ہمارے ایک دوست ہیں ، جن کی دو بہنیں ہیں ۔ ایک بہن کی شادی ہوگئی ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے۔ دوسری بہن غیر شادی شدہ ہے۔ والدین بھی باحیات ہیں ۔ ایک ماہ قبل ان صاحب کی شادی ہوئی ہے۔ یہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں ۔ پاسپورٹ اور ویزا کے مسائل کی وجہ سے ابھی ان کے لیے اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے جانا ممکن نہیں ہے، جب کہ ارادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان کے سعودی عرب جانے کے بعد ان کی بیوی اپنے میکے میں رہے یا سسرال میں ؟ واضح رہے کہ دونوں خاندانوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہے اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سسرال والے اپنی بہو کو اور میکے والے اپنی لڑکی کو اپنے یہاں رکھنے پر تیار ہیں ۔ یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر ان کی بیوی اپنے میکے میں رہے تو کیا وہ ان سے نان و نفقہ پانے کی مستحق ہوگی؟اگر ہاں تو اس کی مقدار کیا ہوگی؟

بیوی کی کمائی میں شوہر کا حصہ

بہ راہ کرم ایک مسئلے میں رہ نمائی فرمائیں :
شوہر بے روزگار ہے، بیوی ملازمت کرتی ہے۔ اس کی تنخواہ سے ہی گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔ شوہر کی سسرال والے اسے لعنت ملامت کرتے ہیں کہ تم حرام کھاتے ہو، بیوی کی کمائی پر جی رہے ہو۔ کیا بیوی کی کمائی سے شوہر کا کھانا پینا جائز ہے یا نہیں ؟ بیوی کی کمائی شوہر کے لیے حلال ہے یا حرام؟ یہ بھی بتائیں کہ دونوں لاولد ہیں تو بیوی کے مرنے کے بعد اس کی جائداد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ کیا شوہر کے علاوہ بھی اس میں کسی کا حصہ ہوگا؟

انفاق کے لیے شوہر کی اجازت

ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کے مال میں سے صدقہ و خیرات کرتی ہے تو اسے نصف اجر ملے گا اور نصف اجر اس کے شوہر کو ملے گا۔ دوسری جگہ حضور اکرمؐ سے مروی ہے کہ ’’عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے کچھ خرچ نہ کرے۔‘‘
ان دونوں احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ عورت کو اگر پورا اجر چاہیے تو اس کو نوکری کرنی ہوگی، تاکہ کچھ مال اس کی ملکیت میں ہو اور اس پر اس کو پورا اختیار ہو، کہ جس کو چاہے دے سکے اور جب چاہے صدقہ و خیرات کرسکے۔
دشواری یہ پیش آتی ہے کہ کوئی بہت ضرورت مند ہمارے پاس آیا۔ اس کو فوری طور پر کچھ امداد کی ضرورت ہے تو کیا اس صورت میں ہم شوہر کے آنے کا انتظار کریں ؟ اس طرح کی چھوٹی موٹی ضروریات روز مرہ کی زندگی میں پیش آتی رہتی ہیں ۔ اس دوران شوہر گھر پر موجود نہیں ہیں ، تو کیا ہر بات کے لیے ان سے اجازت لینی پڑے گی؟ یا انتظار کرنا پڑے گا کہ وہ آئیں ، تب ان سے اجازت لے کر فلاں کام کریں ؟
عام طور پر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو زیور عورت اپنے میکے سے لے کر آتی ہے وہ اس کی ملکیت ہے، اس لیے اس کی زکوٰۃ اسی پر واجب ہے۔ جب عورت کہیں نوکری نہیں کرتی تو زکوٰۃ کس طرح ادا کرے۔ شوہر نام دار یہ کہہ کر پلّہ جھاڑ لیتے ہیں کہ تمھاری ملکیت ہے، تم جانو۔ اس طرح زیورات کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوپاتی۔ بہ راہ کرم اس مسئلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں :