نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت یا اطلاع

براہ کرم ایک مسئلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں : ایک جوڑے (میاں بیوی) کے درمیان کئی سال سے تعلقات خراب چل رہے ہیں ۔ تعلقات کی درستی کے لیے دونوں کے متعلقین کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ بیوی شوہر کی رضا مندی سے بہ سلسلۂ ملازمت بیرون ملک مقیم ہے، جہاں شوہر صاحب بھی کئی مرتبہ گئے ہیں اور چند ماہ قیام بھی کیا ہے۔ دونوں کے درمیان فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے روزانہ گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن اچانک شوہر نے خاموشی کے ساتھ نکاح ثانی کرلیا۔ اس کی اطلاع نہ پہلی بیوی کو دی نہ اس کے ولی کو۔ ولی کو عین نکاح کے وقت پتا چلا تو اس نے نکاح کی مجلس میں پہنچ کر اس کو رکوانا چاہا۔ اس نے کہا کہ نکاح ثانی سے پہلے شوہر کو کم از کم اس کی اطلاع پہلی بیوی کو کرنی چاہیے۔ مگر نکاح خواں مولانا صاحب نے فرمایا کہ شریعت میں نکاح ثانی کے لیے شوہر کو اپنی پہلی بیوی کو اطلاع دینے کی قید نہیں رکھی گئی ہے، یہاں تک کہ اخلاقاًبھی اسے بتانا ضروری نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا پہلی بیوی کو پوری طرح اندھیرے میں رکھ کر نکاح ثانی کرلینا شرعاً اور اخلاقاً درست ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ نکاح ثانی کے لیے کیا شرائط، ضوابط اور آداب ہیں ؟
جواب

اسلامی شریعت میں مرد کو بہ یک وقت ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے، البتہ اس اجازت کو چار تک محدود کردیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلّاَ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَرُبٰعَج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلّاَ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً
(النساء:۳)
’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔‘‘
اس آیت کی ابتدا میں یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکنے کی جو بات کہی گئی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ عہد نبویؐ میں صاحب ِ مال اور صاحب جمال یتیم لڑکی سے اس کا ولی اس کے مال و جمال کی وجہ سے نکاح تو کرلیتا تھا، لیکن دیگر عورتوں کی طرح اسے مہر اور دوسرے حقوق نہیں دیتا تھا۔ اس پر تنبیہ کی گئی کہ اگر یتیم لڑکیوں سے نکاح کرو تو انھیں پورا حق دو، ورنہ دیگر عورتوں سے نکاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ تم ایک سے زائد، چار عورتوں تک سے نکاح کرسکتے ہو۔(۱) آیت کے آخری حصے میں اس اجازت کو بھی عدل سے مشروط کردیاگیا ہے۔ یعنی ایک سے زیادہ عورتوں سے بہ یک وقت نکاح کی اجازت اسی صورت میں ہے، جب تم ان کے درمیان عدل کرسکو۔ اگر ان کے درمیان عدل نہ کرپانے کا اندیشہ ہو تو پھر ایک وقت میں ایک ہی عورت سے نکاح کرو۔
بیویوں کے درمیان عدل کا تذکرہ قرآن مجیدکی ایک دوسری آیت میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْْنَ النِّسَآئِ وَلَوْحَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِط (النساء: ۱۲۹)
’’بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا (قانون الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔‘‘
بعض حضرات کہتے ہیں کہ سورۂ نساء کی تیسری آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر بیویوں کے درمیان عدل نہ کرپانے کا اندیشہ ہو تو ایک ہی بیوی کرو اور اسی سورت کی آیت ۱۲۹ میں صراحت ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرپانا کسی شخص کے لیے ممکن ہی نہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے۔ آیت میں جس عدل کو ناممکن بتایا گیا ہے، اس کا تعلق قلبی تعلق اور محبت سے ہے۔ مختلف اسباب سے یہ چیز فطری ہے کہ آدمی ایک بیوی سے زیادہ محبت کرے اور دوسری بیوی یا بیویوں سے کم کرے۔ اور جس عدل کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا تعلق نفقہ، کسوۃ، سکنیٰ اور شب باشی کے حقوق میں مساوات سے ہے۔ یعنی جس قدر ایک بیوی کا نان و نفقہ برداشت کرے، اس کے لیے لباس و زیورات فراہم کرے، اسے رہائش کی سہولت دے اور اس کے ساتھ رات گزارے، اسی قدر دوسری بیوی کے ساتھ بھی معاملہ کرے۔ جو شخص دو بیویوں کے درمیان معاملات میں فرق روا رکھتا ہے، اس کے لیے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ کَانَتْ لَہٗ امْرَأَتَانِ فَمَالَ اِلٰی اِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْریٰ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ شِقُّہٗ مَائِلٌ ۔(۱)
’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک بیوی کی حق تلفی کرتے ہوئے دوسری بیوی کی طرف جھک جائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے بیویوں کے درمیان عدل و مساوات کا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے۔ آپ کی منظور نظر زوجہ ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ہم میں سے کسی کے پاس صرف اتنی ہی دیر ٹھہرتے تھے، جتنی دیر دوسری بیوی کے پاس ٹھہرتے تھے۔ آپؐ روزانہ ہم سب کے پاس تشریف لاتے تھے ۔ ہر بیوی سے قریب ہوتے، لیکن اسے ہاتھ نہیں لگاتے تھے، یہاں تک کہ آخر میں اس بیوی کے پاس جاتے تھے جس کی باری ہوتی تھی اور اس کے یہاں رات گزارتے تھے۔‘‘ (۲)
اس بنا پر شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر ایک بیوی سے اعفاف کا مقصد پورا ہورہا ہو، یعنی شوہر کی جنسی تسکین ہو رہی ہو اور دوسری کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا مستحب ہے۔ اس لیے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں ان کے درمیان عدل نہ کرپانے کا اندیشہ ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر بیویوں کے درمیان عدل قائم رکھنے کی امید ہو تو ایک سے زائد (چار تک) عورتوں سے نکاح جائز ہے ۔ ( ۱)
شریعت میں نکاح ثانی کو پہلی بیوی کی اجازت یا اطلاع پر موقوف نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ نکاح کا بار شوہر کو اٹھانا ہوتا ہے۔ وہی نان و نفقہ اور دیگر حقوق کی ادائی کا ذمّے دار ہوتا ہے۔ ان معاملات میں سے کسی کا تعلق پہلی بیوی سے نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں متعدد تضادات پائے جاتے ہیں اور متعدد ابہامات موجود ہیں ۔ ابتدا میں کہا گیا ہے کہ زوجین کے درمیان کئی سال سے تعلقات خراب چل رہے ہیں ، جن کی درستی کی کوشش جاری ہے۔ معاً بعد یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیوی شوہر کی رضا مندی سے بہ سلسلۂ ملازمت بیرون ملک مقیم ہے۔ نکاح کا ایک مقصد اِعفاف ہے، یعنی زوجین پاکیزہ زندگی گزاریں اور ان کی جنسی ضروریات پوری ہوں ۔ بیوی کے بیرون ملک ملازمت سے یہ مقصد پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ خاندان میں نان و نفقے کی ذمے داری شوہر پر ہے نہ کہ بیوی پر۔ یہاں یہ واضح نہیں ہے کہ بیوی نے ملازمت، وہ بھی بیرون ملک، عام حالات میں ، محض معیار زندگی بلند کرنے کے لیے اختیار کی ہے، یا کسی مجبوری اور حقیقی ضرورت کی تکمیل کے لیے۔
نکاح ثانی کو پہلی بیوی کی اجازت یا اطلاع سے مشروط کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ شوہر ایک سے زائد نکاح کرنے کی صورت میں بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے اور ان میں سے کسی کی حق تلفی نہ کرے۔ یہی شریعت کا مطلوب ہے۔