رمضان میں امام مسجد کو بونس

ہمارے یہاں ایک مسجد ہے، جس کے امام کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تراویح پڑھانے کے لیے الگ سے ہنگامی چندہ کیا جاتا تھا اور اسے نذرانے کے طور پر امام صاحب کو دیا جاتا تھا۔ مگر بعض رسائل میں اس کے خلاف مستند اداروں کا فتویٰ شائع ہوا اور ہماری مسجد کے متولی صاحب نے بھی الگ سے فتویٰ منگوایا، جس میں اسے ناجائز کہا گیا تھا، تو اسے بند کردیا گیا۔ مگر پھر بونس کے نام سے دو ماہ کے برابر تنخواہ یعنی دس ہزار روپے عید کے موقع پر دیے جانے لگے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سرکاری ملازمین اور بعض پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی تہواروں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر بونس دیا جاتا ہے۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

روزوں کی قضا کا مسئلہ

بہ راہ کرم میرے درج ذیل سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں :
(۱) ولادت کے بعد ایامِ نفاس میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کئی بچوں کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کافی روزے قضا ہوگئے ہیں اور ان پر عرصہ بیت گیا ہے۔ درمیان میں جب جب ہمت ہوئی ان میں سے کچھ روزے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت و تن درستی کے لحاظ سے کم زور و ناتواں واقع ہوئی ہوں ۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔ جب جب روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، نڈھال ہوجاتی ہوں ۔ صحت اس میں تسلسل کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف عوارض کا علاج بھی جاری ہے۔ کیا ان حالات میں روزہ رکھ کر ہی قضا روزوں کا فرض ساقط ہوگا یا فدیہ دے کر بھی اس فرض سے سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟
(۲) اگر حج کا ارادہ ہو اور بہت سے روزوں کی قضا بھی لازم ہو تو کیا سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری ہے؟
(۳) فدیہ کے سلسلے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اس کا صحیح طریقہ اور مقدار کیا ہے؟

فضیلت ِ رمضان پر مروی ایک حدیث کی تحقیق

رمضان کی فضیلت پر ایک حدیث عموماً بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اولہ رحمۃ و اوسطہ مغفرۃ و آخرہ عتق من النار‘‘ (اس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے)
ہمارے یہاں ایک اہل ِ حدیث عالم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس کو رمضان کی فضیلت میں نہیں بیان کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو ہم عرصہ سے سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں ، اس لیے ان کی بات عجیب سی لگی۔ بہ راہ کرم تحقیق کرکے بتائیں ، کیا ان کی بات صحیح ہے؟

یوم عاشورا کا روزہ

یوم عاشورا کی اہمیت کے بارے میں مشہور ہے کہ اس دن کئی تاریخی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک تاریخی واقعہ یہود کے بارے میں ہے کہ انھیں اس دن فرعون سے نجات ملی۔ اس لیے یوم عاشورا کو یہود کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود سے امتیاز کرنے کے لیے یوم عاشورا سے قبل یا بعد ایک دن اور ملا کر دو دن روزہ رکھنا چاہیے۔ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یوم عاشورا اور یہود کا Yom Kippur ایک ہی روز واقع ہوئے ہوں گے، کیا اب بھی ایسا ہوتا ہے؟ کیا یوم عاشورا کا روزہ رکھ لیا جائے اور بہ وجوہ دوسرے دن کے روزے کے بجائے فدیہ ادا کردیا جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟

کیا عید کی نماز اگلے دن پڑھی جاسکتی ہے؟

امسال رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو چاند نظر آگیا اور اگلے دن عید الفطر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن عید کے دن صبح ہی سے زبردست بارش ہونے لگی، جو دیر تک ہوتی رہی۔ سڑکیں ، راستے اور میدان پانی سے بھر گئے۔ بالآخر عیدگاہ کے امام صاحب نے اعلان کردیا کہ آج عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، اس کے بجائے کل نماز ہوگی۔ اس سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور دو گروپ بن گئے۔ کچھ لوگوں نے امام صاحب کی تائید کی، جب کہ دوسرے لوگوں نے کہا کہ عید کا دن گزر جانے کے بعد اگلے دن اس کی نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
بہ راہ کرم اِس مسئلے میں صحیح بات واضح فرمائیں ۔ کیا عید کی نماز کسی عذر کی بِنا پر عید کے اگلے دن پڑھنا درست ہے؟

اعتکاف کے آداب

میں ایک مدرسہ میں کام کرتا ہوں ، مدرسہ کے ناظم ہر سال رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ مدرسہ کے دیگر ذمہ دار اور اساتذہ بھی اعتکاف کرتے ہیں ۔ مدرسہ میں نئے سال کی تعلیم شوال سے شروع ہوتی ہے، اس لیے داخلہ فارم رمضان میں آتے ہیں ، انھیں چیک کرکے جواب دینا ہوتا ہے۔ یہ سارا دفتری کام ناظم صاحب دوران اعتکاف انجام دیتے ہیں ۔ داخلہ چاہنے والے جو لوگ آتے ہیں ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک اعتبار سے پورا دفتر نظامت رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ناظم صاحب اعتکاف میں موبائل بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ اس طرح وہ باہر کے لوگوں سے برابر رابطہ میں رہتے ہیں ۔
یہ چیزیں مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتی ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا دوران ِ اعتکاف ان کاموں کی انجام دہی کی اجازت ہے؟

سفر میں روزہ

سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے رخصت ہے، اس لیے اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری جانب آج کے دور میں سفر بڑے آرام دہ اور پرتعیش ہوگئے ہیں ۔ ذرا بھی دشواری اور پریشانی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات سفر میں گھر سے زیادہ آرام ملتا ہے۔ اس صورت حال میں کیا یہ بہترنہ ہوگا کہ اگر رمضان میں کہیں سفر کرنا پڑ جائے تو دوران ِ سفر بھی روزہ رکھ لیا جائے؟

روزہ کے چند مسائل

(۱) کیا روزہ کی حالت میں کسی شخص کو خون دیا جاسکتا ہے؟ خون نکلوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا باقی رہے گا؟
(۲) کیا روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالی جاسکتی ہے؟ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا؟
(۳) سعودی عرب میں عموماً ایک دن پہلے رمضان المبارک کا روزہ شروع ہوتا ہے۔ ایک شخص نے رمضان کا آغاز سعودی عرب میں کیا، پھر آخری عشرہ میں وہ اپنے وطن (ہندوستان) آگیا۔ یہاں ۲۹؍ رمضان المبارک کو عید کا چاند نظر نہیں آیا۔ چنانچہ رؤیت ہلال کمیٹی نے تیسواں روزہ رکھے جانے کا اعلان کردیا۔ اس شخص کے تیس روزے ۲۹؍ رمضان ہی کو پورے ہوچکے ہیں ۔ کیا اسے تیس رمضان المبارک کو روزہ رکھنا ہوگا؟ جب کہ وہ اس کا اکتیسواں روزہ ہوگا۔

محرم کے روزے

محرم الحرام کے دوروزوں (نواور دس) کی فضیلت احادیث میں  واردہوئی ہے اور یہ روزے عموماً رکھے جاتے ہیں ۔لیکن بعض حضرات یکم محرم سے د س محرم تک روزہ رکھنا بھی سنت قراردیتے ہیں ۔ کیا یہ عمل اللہ کے رسولﷺ اورصحابہ سے ثابت ہے؟ اس کو سنت کہنا کیسا ہے؟

اکتیسواں روزہ

عرب ممالک میں روزہ ہندوستان سے ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ملازمت کرنے والے ہندوستانی بسا اوقات دوران رمضان میں اپنے ملک واپس آتے ہیں ۔ یہاں کبھی انتیس (۲۹) کا چاند نہ ہونے کی وجہ سے تیسواں روزہ رکھنا پڑتا ہے، جو عرب ممالک سے آنے والوں کا اکتیسواں روزہ ہوتا ہے۔ ان کے سلسلے میں یہ سوال ہے کہ وہ اکتیسواں روزہ رکھیں یا نہ رکھیں ؟ بعض حضرات کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چوں کہ قمری مہینہ انتیس (۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے، اس لیے اکتیسواں روزہ رکھنا درست نہیں ۔ بہ راہ کرم اس معاملہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔