اگر یہ ڈھیلا ڈھالا اصول لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے کہ تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو تو کیا اس سے یہ خطرہ نہیں کہ دین کے معاملے میں بالکل امان ہی اٹھ جائے گی اور جس کے ہاتھ میں یہ نسخہ پکڑا دیا جائے گا وہ پورے دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دے گا؟

کیا آپ تحریک اقامت دین کے قائد کی حیثیت سے خود اپنے لیے اس اختیار کے مدعی ہیں کہ حکمت ِ عملی یا عملی سیاست یا اقامت دین کے مصالح کے تحت دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کریں ، کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرائیں ‘ اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کر دیں ؟

اقامت دین کی حکمت عملی

کیا آپ چاہتے ہیں کہ اب اقامت دین کی جدوجہد انبیا کے طریق عزیمت کو چھوڑ کر صرف رخصتوں اور حیلوں ‘ مصلحت پرستیوں ہی کے بل پر چلے اور سیاسی اغراض کے لیے دین کے جس اصول میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو اسے حدودِ شریعت کا لحاظ کیے بغیر دینی حکمت و مصلحت کے نام سے کر ڈالا جائے؟

حضرت مسیح اورامامِ مہدی ؉ کا انکار

مسیح؈ کی حیات ووفات کے متعلق آپ اپنا عقیدہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ظاہر کریں ۔ اسی طرح نزول وصعود کے متعلق ہمیں آپ کی تحریروں سے شبہہ پڑتا ہے کہ مسیح؈ اور مہدی ؑ کے آپ منکر ہیں ؟

جماعتِ اسلامی اور تفرقہ

جماعت اسلامی کی تحریک سے مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بن جائے گا۔اس خطرے کا کیا سدِّباب کیا گیا ہے؟

شہیدانِ ختم نبوت کو حرام موت مرنا کہنا

شہیدان ختم نبوت کو آپ کی جماعت کے ارکان ومتفقین حرام موت مرناکہتے رہے ہیں ۔ کیا یہ آپ کی جماعت کا ہی نظریہ ہے،یا اِن لوگوں کا ذاتی نظریہ؟ اگر ذاتی ہے تو کیا اس مقدس تحریک میں ذاتی طور پر حصہ لینے والے لوگوں کے خلاف جماعتی کارروائی کی تھی؟ اسی طرح ایسا کرنے والوں کے خلاف آپ کوئی جماعتی کارروائی کریں گے؟

ایمان بالقدر اور مخالفین کی بد دیانتی

خدا کے دین کی اشاعت کا جو کام اپنی توفیق کے مطابق ہم لوگ سرانجام دے رہے ہیں ،اس کے پھیلنے میں آپ کی بعض کتابیں مثلاً دینیات، خطبات وغیرہ بہت مدد دے رہی ہیں اور ان کی مانگ برابر بڑھ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ کتابیں مخالفین کرام کا خاص ہدف بھی بنی ہوئی ہیں ۔ان کی بعض عبارات کو چھانٹ چھانٹ کر غلط فہمی پھیلانے اور ہمیں بدنام کرنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا پرست مفتیان کرام ان عبارات کی بنیاد پر ہمارے خلاف فتواے کفر تک جاری کرچکے ہیں ۔ان حالات میں گفتگوئوں کا محور تمام تر آپ کی چند خاص عبارات بن گئی ہیں ۔ان میں سے ایک حسب ذیل ہے:
رسالۂ دینیات باب چہارم کے آخر میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ پانچ عقیدے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ان پانچوں کا خلاصہ صرف ایک کلمے میں آجاتا ہے۔‘‘پھر باب پنجم میں درج ہے کہ’’پچھلے باب میں تم کو بتایا گیا ہے کہ حضرت محمدؐ نے پانچ اُمور پر ایمان لانے کی تعلیم دی ہے۔‘‘حالاں کہ حدیث صحیح میں وَالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ کو ملا کر ایمان کو چھ چیزوں پر مشتمل قرار دیا گیا ہے نہ کہ پانچ پر۔اس سے معترضین نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ’’فرقہ مودودیہ تو قدر پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ لوگ خیر وشر کے خد اکی طرف سے ہونے کے منکر ہیں ۔یہ وہی قدریہ ہیں جن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ وہ اس امت کے آتش پرست ہیں ۔‘‘اس استدلال کی بنیاد پر صرف جھوٹی الزام تراشی ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ ہمیں صریحاً کافر کہا جاتا ہے اور ہم پر طرح طرح کے مظالم توڑ رہے ہیں ۔ بعض جگہ جماعت اسلامی کے ہم دردوں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ علماے سوء عوام میں وعظ کہتے پھرتے ہیں کہ’’لوگو! خبردار! یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمارا ایمان چوری کیا ہے،انھیں جتنی اذیت دو کم ہے۔‘‘
اس اعتراض کے جواب میں ہم نے واضح کیا ہے کہ ہمارا ایمان قدر پرہے۔لیکن رسالۂ دینیات میں ایمان صرف پانچ چیزوں پر مشتمل اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قدر پر ایمان ایمان باﷲ کے اندر شامل ہے۔ اس جواب کی تائید میں ہم’’مسئلۂ جبر وقدر‘‘کو پیش کرتے ہیں ، مگر معترضین آپ کے جواب پر مصر ہیں ۔

مسئلہ جبر وقدر اور مخالفین کی بددیانتی

آپ کی کتابوں کی بعض باتوں پر مجھے شک ہے۔مثلاًآپ قضا وقدر کو جزو ایمان نہیں سمجھتے جیسا کہ آپ کی مندرجۂ ذیل تحریر سے معلوم ہوتا ہے:
’’ہر چند میرے نزدیک مسئلۂ قضا وقدر جز وِایمان نہیں ہے۔‘‘ ({ FR 1135 })
لیکن علماے دین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جزو ایمان ہے۔جیسا کہ آتا ہے:
اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔({ FR 1136 })