معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت یزید کی سربراہی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماہ نامہ زندگی نو، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک مضمون حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی سیرت پر شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی ایک عبارت (ص: ۷۱) سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’حضرت یزید بن معاویہؓ کی سربراہی میں قسطنطنیہ کی اس مہم میں بھی انھیں شرکت کا شرف حاصل ہے، جس میں شریک رہنے والوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ البتہ زمانۂ فتنہ (جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ) میں وہ الگ تھلگ رہے اور کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جنگ ِ قسطنطنیہ، جس میں یزید مذکور شریک تھا، وہ جنگ نہیں ہے جس میں شریک مسلمانوں کو جنت یا بخشش و نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ پھر بھی اگر مضمون نگار کا خیال صحیح ہے تو بہ راہ ِ کرم دلائل سے وضاحت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ بہ راہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا یزید صحابی تھا اسی لیے مضمون میں اسے ’حضرت یزید بن معاویہؓ ‘لکھا گیا ہے؟ یعنی اللہ اس سے راضی ہوا۔ کیا زمانۂ فتنہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہی کا زمانہ تھا؟ اس کے بعد کا زمانہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو کیا زمانہ امن و سلامتی و ہدایت کے اعتبار سے راہِ نبوت و خلافت ِ راشدہ پر لوٹ آیا تھا؟ یعنی اموی و عباسی زمانہ زمانۂ فتنہ نہ تھا۔ اگر حضرت معاویہؓ کا دور، جس میں یزید بھی قسطنطنیہ کی جنگ میں بہ طور سربراہ شریک تھا، زمانۂ فتنہ نہ تھا اور فتنے کے زمانے سے نکل آیا تھا تو پھر اسے خلافت راشدہ کے دور سے تعبیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر دونوں زمانوں میں فرق تھا، جس کی وجہ سے دورِ خلافت ِ معاویہ کو خلافت ِ راشدہ کا دور نہیں قرار دیا جاتا تو وہ فرق کیا تھا؟
کیا جنگ ِ قسطنطنیہ ہی وہ پہلی بحری جنگ ہے جس کے متعلق ہمارے مقررین و مصنفین یہ فرماتے ہیں کہ پہلی بحری جنگ میں جو لوگ شریک ہوں گے اللہ نے انھیں بخش دیا۔ اس لیے ’حضرت یزید رضی اللہ عنہ‘ بھی بخشے گئے؟ کیا قسطنطنیہ میں یہی ایک جنگ ہوئی جس میں یزید بن معاویہ شریک ہوا تھا یا سربراہ تھا؟
ایک صاحب اپنی ایک مشہور ترین کتاب میں کعب احبار کو باقاعدہ ’کعب احبار ؓ ‘لکھتے ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی صحابی تھے۔ کیا یہ صحابی تھے؟ اس لیے شناخت کے لیے ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جانا چاہیے، جیسا کہ مضمون مذکور میں یزید بن معاویہ کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی وضاحت سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔

نزولِ وحی کی ابتدا کازمانہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی سے بچوں کے لیے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف جناب عرفان خلیلی ہیں ۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نزولِ وحی کا آغاز ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا ۔ہم نے اب تک پڑھا اور سنا ہے کہ ایسا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ، کیا صحیح ہے؟

آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے:
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:)
’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں :
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ )
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟

غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے:
’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵)
قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘

حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔
(۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟
(۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟
(۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟
(۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟
(۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟
(۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟

نزولِ وحی کی ابتدا کازمانہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی سے بچوں کے لیے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف جناب عرفان خلیلی ہیں ۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نزولِ وحی کا آغاز ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا ۔ہم نے اب تک پڑھا اور سنا ہے کہ ایسا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ، کیا صحیح ہے؟

آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے:
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:)
’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں :
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ )
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟

غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے:
’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵)
قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘

معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت یزید کی سربراہی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماہ نامہ زندگی نو، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک مضمون حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی سیرت پر شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی ایک عبارت (ص: ۷۱) سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’حضرت یزید بن معاویہؓ کی سربراہی میں قسطنطنیہ کی اس مہم میں بھی انھیں شرکت کا شرف حاصل ہے، جس میں شریک رہنے والوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ البتہ زمانۂ فتنہ (جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ) میں وہ الگ تھلگ رہے اور کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جنگ ِ قسطنطنیہ، جس میں یزید مذکور شریک تھا، وہ جنگ نہیں ہے جس میں شریک مسلمانوں کو جنت یا بخشش و نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ پھر بھی اگر مضمون نگار کا خیال صحیح ہے تو بہ راہ ِ کرم دلائل سے وضاحت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ بہ راہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا یزید صحابی تھا اسی لیے مضمون میں اسے ’حضرت یزید بن معاویہؓ ‘لکھا گیا ہے؟ یعنی اللہ اس سے راضی ہوا۔ کیا زمانۂ فتنہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہی کا زمانہ تھا؟ اس کے بعد کا زمانہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو کیا زمانہ امن و سلامتی و ہدایت کے اعتبار سے راہِ نبوت و خلافت ِ راشدہ پر لوٹ آیا تھا؟ یعنی اموی و عباسی زمانہ زمانۂ فتنہ نہ تھا۔ اگر حضرت معاویہؓ کا دور، جس میں یزید بھی قسطنطنیہ کی جنگ میں بہ طور سربراہ شریک تھا، زمانۂ فتنہ نہ تھا اور فتنے کے زمانے سے نکل آیا تھا تو پھر اسے خلافت راشدہ کے دور سے تعبیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر دونوں زمانوں میں فرق تھا، جس کی وجہ سے دورِ خلافت ِ معاویہ کو خلافت ِ راشدہ کا دور نہیں قرار دیا جاتا تو وہ فرق کیا تھا؟
کیا جنگ ِ قسطنطنیہ ہی وہ پہلی بحری جنگ ہے جس کے متعلق ہمارے مقررین و مصنفین یہ فرماتے ہیں کہ پہلی بحری جنگ میں جو لوگ شریک ہوں گے اللہ نے انھیں بخش دیا۔ اس لیے ’حضرت یزید رضی اللہ عنہ‘ بھی بخشے گئے؟ کیا قسطنطنیہ میں یہی ایک جنگ ہوئی جس میں یزید بن معاویہ شریک ہوا تھا یا سربراہ تھا؟
ایک صاحب اپنی ایک مشہور ترین کتاب میں کعب احبار کو باقاعدہ ’کعب احبار ؓ ‘لکھتے ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی صحابی تھے۔ کیا یہ صحابی تھے؟ اس لیے شناخت کے لیے ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جانا چاہیے، جیسا کہ مضمون مذکور میں یزید بن معاویہ کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی وضاحت سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔

حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔
(۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟
(۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟
(۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟
(۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟
(۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟
(۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟