حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔ (۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟ (۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟ (۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟ (۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟ (۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟ (۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟ (۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟
جواب

بیت اللہ اور مسجد حرام کی تاریخ پر متعدد کتابیں موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر عربی زبان میں ملاحظہ کیجیے: اخبار مکۃ، ابو الولید ازرقی، مکتبہ خیاط بیروت ۱۹۶۴اور شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، مکتبۃ النہضۃ الحدیثۃ، مکۃ مکرمۃ ۱۹۵۶۔ ان کتابوں میں بعض روایتیں ایسی ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر بھیجے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ حجر اسود کو بھی اتارا تھا، تاکہ وہ اس کے ساتھ مانوس رہیں ۔ طوفانِ نوح کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسے جبل ابو قبیس پر محفوظ رکھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر نو کی تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اسے لاکر اس کی جگہ نصب کردیا۔ تعمیر ابراہیمی کے بارے میں ازرقی نے اپنی کتاب میں ، ابن جریر طبریؒ نے اپنی تفسیر اور تاریخ دونوں میں اور دیگر مؤرخین نے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تو ایک پتھر کی جگہ رہ گئی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر تلاش کرنے گئے، لے کر آئے تو دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں ایک دوسرا پتھر لگا چکے ہیں ۔ دریافت کیا: ’’ابّا جان! یہ پتھر کہاں سے آیا؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: ’’یہ اس ذات نے دیا ہے، جو تمھارا محتاج نہیں ہے۔ اسے جبریل علیہ السلام آسمان سے لے کر آئے ہیں ۔‘‘
حجر اسود کے جنت سے نازل ہونے کا ذکر بعض احادیث میں بھی ہے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح سے روایت ہے: اِنَّ الْحَجَرَ وَالْمَقَامَ یَاقُوْتَتَانِ مِنْ یَاقُوْتِ الْجَنَّۃِ (حجر اور مقام جنت کے یاقوتوں میں سے ہیں ) اسے احمدؒ، ترمذیؒ اور ابن حبانؓ نے روایت کیا ہے۔ دوسری روایت حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعاً مروی ہے: نَزَلَ الْحَجَرُ الاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃِ (حجر اسود جنت سے نازل ہوا ہے)، اسے احمدؒ، ترمذیؒ، نسائیؒ اور ابن خزیمہؒ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ تاریخی روایتوں کو مستند نہیں کہا جاسکتا اور احادیث میں بھی کچھ نہ کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے فتح الباری، ۳؍۴۶۲)
مشرکین مکہ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسلی تعلق تھا۔ وہ عہد جاہلیت میں خانۂ کعبہ کے نگہبان اور منتظم تھے۔ وہ حج اور طواف کرتے تھے۔ لات و منات کی طرح حجر اسود کے سلسلے میں ان کے کسی شرکیے عقیدہ کا علم نہیں ہے۔
جہاں تک حجر اسود کی شرعی حیثیت کا سوال ہے تو اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے اس سے طواف شروع کیا ہے، اس کا بوسہ لیا ہے، اس کا استلام کیا ہے، یعنی اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کا بوسہ لیا ہے اور سواری پر طواف کرنے کی صورت میں اپنے ہاتھ میں کسی چیز مثلاً چھڑی وغیرہ سے اسے چھوا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الحج: ۱۶۰۳، ۱۶۰۵، ۱۶۰۶، ۱۶۰۷، ۱۶۱۰، ۱۶۱۱، صحیح مسلم، کتاب الحج: ۱۲۶۱، ۱۲۶۸، ۱۲۷۰، ۱۲۷۲) اس بنا پر حجر اسود سے طواف شروع کرنا، اس کا بوسہ لینا اور استلام کرنا مسنون ہے۔ حجر اسود کے سلسلے میں حضرت عمر بن الخطابؓ کا تاریخی جملہ ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ انھوں نے ایک موقعے پر حجر اسود کا بوسہ لیا اور فرمایا:
اِنِّیْ أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ وَ لَوْلاَ اِنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب ما ذکر فی الحجر الاسود )
’’یقینا میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تیرا بوسہ نہ لیتا۔‘‘