غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے: ’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵) قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘
جواب

مولانا مودودیؒ نے غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت دوسوسال قرار دی ہے۔ یہ ان سے کوئی چوک نہیں ہوئی، بلکہ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔ اصحابِ کہف کے زمانے کی تعیین میں مولانانے دوتاریخی مآخذ سے مددلی ہے ۔ایک ماخذ کاتذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیاہے :
’’ اس قصہ کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے، جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے ۔ یہ شخص اصحابِ کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ء میں پیدا ہواتھا اور اس نے ۴۷۴ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتاہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی، جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے اور دوسری طرف یورپ پہنچی ،جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اورخلاصے شائع ہوئے۔ گبّن نے اپنی کتاب ’تاریخ زوال وسقوطِ دولتِ روم ‘ کے باب ۲۳میں ’سات سونے والوں ‘(Seven Sleepers)کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جوخلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایت سے اس قدر ملتا جلتاہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔
پھر مولانا مودودیؒ نے دونوں روایتوں کے درمیان متعدد مماثلتوں کی نشان دہی کرنے کے بعد لکھاہے :
’’قصہ کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کے زمانے میں جب مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت ظلم وستم ہورہے تھے ، یہ سات نوجوان ایک غار میں جا بیٹھے تھے ۔پھر قیصرتھیوڈوسیس کی سلطنت کے اڑتیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ءیا ۴۴۶ء میں )یہ لوگ بیدار ہوئے ، جب کہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیروبن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶سال بنتی ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، کمپیوٹر ائزڈایڈیشن ۲۰۱۵ء: ۳؍۱۲۔۱۳)
دوسرے ماخذ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒلکھتے ہیں :
’’ان (اصحابِ کہف) کے قصے کی جو تفصیلات مسیحی روایات کو جمع کرکے گریگوری آف ٹورس(Gregory of Tours)نے اپنی کتاب (Meraculorum Liber) میں بیان کی ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سات نوجوان تھے (جو شرک سے تائب ہوکر خدائے واحد پرایمان لے آئے تھے) ان کی تبدیلیٔ مذہب کا حال سن کر قیصر ڈیسیس نے ان کواپنے سامنے طلب کیا اوردھمکی دی کہ اگر تین دن میں تم نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اور اپنی قوم کے مذہب کی طرف نہ پلٹ آئے تو تمھاری گردن مار دی جائے گی۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر یہ ساتوں نوجوان شہر سے بھاگ نکلے اور انھوں نے پہاڑوں کی راہ لی ،تاکہ کسی غار میں جاچھپیں ۔ تھکے ماندے تھے ، اس لیے فوراً ہی سوگئے ، یہ ۲۵۰عیسوی کا واقعہ ہے ۔۱۹۷؍برس بعد ۴۴۷عیسوی میں وہ یکایک بیدار ہوئے، جب قیصر تھیوڈوسیس دوم کا عہد حکومت تھا، رومی سلطنت مسیحیت اختیار کرچکی تھی اور شہر افسوس کے باشندے بھی بت پرستی ترک کرچکے تھے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳:؍۷۶۹۔ضمیمہ بہ سلسلۂ سورۂ کہف،بہ تلخیص)
سورۂ کہف کی آیت نمبر ۲۵ یہ ہے:
وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًاO
’’اور وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں )۹؍سال اور بڑھ گئے ہیں ۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں دو اقوال ہیں :
اول یہ کہ ’’ وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے۔ اس نے خبر دی ہے کہ غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت حقیقتاً تین سو سال ہے۔
دوم یہ کہ یہ اہل کتاب کے قول کی حکایت ہے کہ ان میں سے بعض غار میں اصحاب کہف کے قیام کی مدت تین سو(۳۰۰)سال اور بعض تین سونو (۳۰۹)سال بتاتے ہیں ۔
مولانا مودودیؒ نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے اور اسے مدلل کرتے ہوئے انہوں نے درج بالاآیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’ اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ ’’کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا.....اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نوسال اور بڑھ گئے ہیں ۔‘‘ اس عبارت میں تین سو اور تین سو نو سال کی تعداد جو بیا ن کی گئی ہے، ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرمارہا ہے کہ تم کہو: اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے ۔ اگر۳۰۹سال کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانےکے کوئی معنی ٰ نہ تھے۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے،بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ،حوالہ سابق۳:؍۲۱)
ایسا نہیں ہے کہ مولانا مودودیؒ اس رائےمیں منفرد ہیں اور دیگر تمام مفسرین کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے ۔اس لیے یہاں یہ سوال کرنے کا موقع نہیں ہے کہ مولانا مودودی کی بات مانی جائے یادیگر تمام مفسرین کی؟ اور یہ مطالبہ کرنا بھی بے محل ہے کہ ’’چوں کہ مولا نا مودودی سے غلطی ہوگئی ہے، یا چوک اورتسامح ہوگیا ہے اور چوں کہ مولانا مودودیؒ خود بتاگئے ہیں کہ پیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا اور تنقید سے بالاتر نہیں ، اس لیے ہمیں مولانا کی اس غلطی کو تسلیم کرلینا چاہیے، اس سے ان کی عظمت وبزرگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ‘‘
بعض عربی اور اردو مفسرین نے لکھ دیا ہے کہ ’’ اصحاب کہف غار میں تین سو سال رہے، یہ جمہور مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام مفسرین کی رائے ہے، بلکہ بہت سے مفسرین نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک یہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر۔ذیل میں اس کی کچھ تفصیل پیش کی جاتی ہے :
(۱) صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن عباس ؓ (م۶۸ھ)،جن کا علم تفسیر میں اعلیٰ مقام تھا، ان کی رائے تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول نہیں ہے، بلکہ لوگوں کا مقولہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ان سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
’’آدمی کسی آیت کی تفسیر بیان کرتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اس نے بالکل صحیح تفسیر کی ہے، حالاں کہ وہ اس میں ایسی فاش غلطی کرتا ہے گویا وہ آسمان وزمین کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ دور جاگرا ۔ بہ طور مثال انہوں نے یہی آیت تلاوت کی(اور وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے) پھر فرمایا: اصحابِ کہف کے غار میں قیام کی مدت کیا تھی؟ لوگوں نے کہا: تین سو نوسال۔ اگر وہ واقعی اتنی مدت غار میں رہے ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں نہ فرماتا: ’’تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدت زیادہ جانتا ہے۔‘‘ یہ دراصل ا للہ تعالیٰ نے لوگوں کے قول کی حکایت کی ہے۔ پہلے اس نے فرمایا: ’’کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے۔‘‘ یہاں تک کہ فرمایا:’’ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں ‘‘ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ انھیں اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے۔ پھر فرمایا:(وہ کہتے ہیں کہ ) ’’ وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے۔‘‘ (آلوسی،روح المعانی، شوکانی،فتح القدیر،تفسیرسورۂ کہف، آیت ۲۵)
(۲) دوسرے صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ (م۳۲ھ) ،جو صحابۂ کرام کے درمیان علم تفسیر میں شہرت رکھتے تھے، ا ن کی قراءت میں ہے:وقالواولبثوا (تفسیرطبری)یعنی ان کے نزدیک بھی یہ لوگوں کا قول ہے۔
(۳) تابعین میں حضرت قتادہ ؒ(م ۱۱۸ھ) اور حضرت مطرف بن عبداللہؒ(م۸۷ھ) کی بھی یہی رائے تھی۔
(۴) بیش تر مفسرین نے سورۂ کہف کی آیت ۲۵ کی تفسیر میں دونوں اقوال نقل کردیے ہیں ۔ ان میں ماوردی (م۴۵۰ھ) زمخشری (م۵۳۸ھ) عزبن عبدالسلام، (م۶۶۰ھ) بیضاوی(م۶۸۵ھ) نسفی(م۷۰۱ھ) ابو حیان اندلسی (م۷۴۵ھ) ابن کثیر (م۷۷۴ھ) اور آلوسی (م۱۲۷۰ھ) نے پہلے اول الذکر قول (کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے)کو درج کیا ہے اور بعد میں موخر الذکر قول (کہ یہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے )کو جگہ دی ہے،جب کہ ابن جریر طبری (م۳۱۰ھ) مکی بن ابی طالب (م۴۳۷ھ) بغوی (م۵۱۰) ابن عطیہ (م ۵۴۱ھ) ابن الجوزی (م ۵۹۷ھ) رازی (م۶۰۶ھ)اور ابن عاشور(م۱۳۹۳ھ)نے ترتیب اس کے برعکس رکھی ہے۔ ان میں سے صر ف طبری، ابن کثیر اور بغوی نے اس قول کو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بیا ن ہے، قابل ترجیح اور زیادہ صحیح قراردیاہے،دیگر مفسرین نے اپنی کوئی رائے شامل نہیں کی ہے۔
ابن کثیر ؒ نے اپنی رائے (کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے) دینے کے بعد لکھا ہے:
ہذاالذی قلنا ہ علیہ غیر واحد من علماء التفسیر کمجاہد وغیر واحد من السلف والخلف۔
’’ ہم نے جو رائے پیش کی ہے وہی ایک سے زائد علمائے تفسیر مثلاً مجاہدؒ اور سلف وخلف میں سے ایک سے زائد اصحاب علم کی بھی رائے ہے۔‘‘
دوسری طرف علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
وقال جمع : ان الجملۃ من کلام أہل الکتاب
’’بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ جملہ(وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ) اہل کتاب کے قول کی حکایت ہے ‘‘۔
بعض مفسرین نے صرف یہ لکھا ہے کہ یہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔ (انہوں نے اول الذکر قول کو نقل ہی نہیں کیا ہے۔ )مثلاً جمال الدین القاسمی صاحب محاسن التاویل (م۱۳۳۲ھ)اور محمد بن یوسف اطفیش اباضی الجزائری(م۱۳۳۲ھ)وغیرہ
(۵) جدید دور کے متعدد اردو مترجمین ومفسرین قرآن کی بھی وہی رائے ہے جو مولانا مودودیؒ کی ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا بیان نہیں ، بلکہ لوگوں کے قول کو نقل کیا گیا ہے۔
مثلاً مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور (کہتے ہیں ) وہ غار میں تین سو برس تک رہے اور لوگوں نے نو برس اور بڑھا دیے ہیں ۔‘‘
مولانا پیر محمد کرم شاہ ازہری نے یہ ترجمہ کیا ہے:
’’ اور (اہل کتاب کہتے ہیں کہ ) وہ ٹھیرے رہے اپنے غار میں تین سوسال اور زیادہ کیے انھوں نے(اس پر ) نو سال۔‘‘
پھر اس پر یہ حاشیہ لکھا ہے:
’’ اب جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین سونوسال کی مدت قرآن کی بیان کردہ مدت نہیں ، بلکہ اہل کتاب کی رائے ذکر کی گئی اور پھر اس کے بعد اس کی تردید کی گئی تو اب گبّن(Gibbon) نے قرآن اور صاحب قرآن پر اس وجہ سے جو اعتراض کیا ہے کہ یہ مدت غلط ہے، صحیح مدت ۱۸۷؍ سال ہے، خود ہی باطل ہوگیا۔‘‘
(ضیاء القرآن ، اعتقاد پبلشنگ ہائوس ، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء: ۳؍۲۳۔۲۴)
مولانا امین حسن اصلاحیؒ سورۂ کہف کی آیت ۲۵ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’آیت ۲۲سے جوجملۂ معترضہ شروع ہوا تھا وہ آیت ۲۴ پر ختم ہوا۔ اب یہ آیت انہی اقوال سے متعلق ہے جو اوپر اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق نقل ہوئے ہیں ۔ یعنی جس طرح وہ ان کی تعداد کے بارے میں یہ کہیں گے، اسی طرح غار میں ان کی مدت قیام سے متعلق دعویٰ کریں گے کہ وہ غار میں تین سوسال اور مزید برآں نوسال رہے۔
عام طور پر لوگوں نے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبرکے مفہوم میں لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک ان کی مدت قیام کے باب میں قرآن نے کوئی قطعی بات نہیں کہی ہے ۔ آیت ۱۱میں ’ سنین عددا ‘کے الفاظ ہیں ۔ وہ اس بات پر تو ضرور دلیل ہیں کہ یہ لوگ غار میں کئی سال رہے، لیکن تین سو نوسال کی مدت کی تعبیر کے لیے عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ الفاظ بالکل ناموزوں ہیں ۔ پھر اس کے بعد کی آیت قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْااس مطلب سے بالکل اِباکرتی ہے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ وہ تین سونوسال غارمیں رہے تو پھر یہ کہنے کے کیا معنیٰ کہ ان لوگوں سے کہہ دوکہ ان کی مدت ِقیام کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔
کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوکہ میں اس تاویل میں منفرد ہوں ۔ متعدد دوسرے ائمۂ تفسیر کی رائے بھی یہی ہے۔ والعلم عنداللہ۔‘‘
(تدبر قرآن ، تاج کمپنی دہلی، ۱۹۸۹ء،۴؍۵۷۷)
مولانا شمس پیرزادہ ؒنے لکھا ہے :
’’ یہ فقرہ قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اوپر تین سو نوسال کی مدت کا جو ذکر ہوا وہ لوگوں کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے۔ اوپر آیت ۲۲ میں تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کا ذکر ہواتھا۔ درمیان میں جملۂ معترضہ آیا۔ اب پھر اسی سلسلۂ بیان میں اصحاب کہف کے غار میں پڑے رہنے کی مدت کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا گیا کہ وہ تین سو نوسال بتاتے ہیں ۔ مگر اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنی مدت بھی رہے، اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس قصے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما چکا ہے کہ وہ غار میں سالہا سال تک رہے(آیت۱۱) یعنی وہ ایک طویل مدت تک غار میں سوتے رہے اور اتنی بات سبق آموزی کے لیے کافی ہے۔‘‘
(دعوت القرآن، ادارۂ دعوت القرآن ، ممبئی، ۱۹۹۰ء: ۲؍۹۹۳)
مولانا وحید الدین خاں نے بھی ٹھیک وہی بات لکھی ہے جو مولانا مودودی ؒنے کہی ہے اور اسے انہوں نے قرآن کا معجزہ قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ کیجئےتذکیر القرآن، مکتبہ الرسالہ،نئی دہلی ، ۱۹۸۷ء، ۲؍۱۶)
(۶) مولانا حفظ الرحمٰن سیوہار ویؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے ۔ انہوں نے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، قتادہ ؒ اور مطرفؒ کی روایات نقل کی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول نہیں ، بلکہ لوگوں کا مقولہ ہے۔ پھر لکھاہے:
’’ہمارے نزدیک بھی یہی معنیٰ راحج ہیں ، کیوں کہ قرآن کا سیاق اسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے کہ ان آیات میں قرآن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ اس قسم کی غیر مفید اور اٹکل کی باتو ں کے پیچھے نہ پڑیں ۔ پس جب کہ وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْکے بعد یہ کہاگیا : اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْالَہُ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ تو اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ غار میں قیام کی مدت کا مسئلہ بھی اندھیرے کا تیر ہے اور اس لیے صحیح طریقۂ کار اس بارے میں بھی یہی ہے کہ اس کو علم الٰہی کے سپرد کردیا جائے ۔ لہٰذا اس صورت میں یہ مقولہ اللہ تعالیٰ کانہیں ، بلکہ ان لوگوں کا ہے جو زمانۂ نبوت میں اس واقعہ کی تفصیلات کے سلسلہ میں بے فائدہ اٹکل کے تیر چلاتے رہتے تھے۔‘‘
آگے انہوں نے ابن کثیرؒ کی رائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر ہے، اور ان کے دلائل کونقل کرکے ان کا محاکمہ کیا ہے اور ان کی تردید کی ہے۔
(قصص القرآن ، دارالاشاعت کراچی، ۲۰۰۲ء: ۳؍۱۹۸۔۱۹۹)
اس تفصیل سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مولانا مودودی ؒاور بعض دیگر مفسرین نے مسیحی تاریخی روایات کے حوالے سے غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی جومدت(دوسوسال) بیان کی ہے، وہ قطعی ہے۔ اسے بس ایک رائے کی حیثیت سے دیکھا جاناچاہیے۔اس لیے کہ بعض دیگر روایتوں میں دوسری مدتوں کا تذکرہ ہے ۔ مثلاً مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ نے اپنی اردو تفسیر میں لکھاہے:’’قدیم مسیحی روایتوں اور نو شتوں میں یہ مدت تین سوسات(۳۰۷)سال درج ہے اور بعض نسخوں میں تین سو ترپن (۳۵۳) سال ۔‘‘ تفصیل کے لیے انھوں نے اپنی انگریزی تفسیرکا حوالہ دیا ہے۔ جناب عبداللہ یوسف علیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں بعـض مسیحی مورخین مثلاً SIMEON METAPHRASTES کاتذکرہ کیاہے، جن کے مطابق یہ مدت تین سو بہتر (۳۷۲) سال قرار پاتی ہے۔ ابن عاشورنے لکھا ہے کہ عیسائی مورخین غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت دوسو چالیس(۲۴۰)سال قرار دیتے ہیں ۔ (التحریر والتنویر، ا لدار التونسیتہ للنشر تونس، ۱۹۸۴ء، جز ۱۵،ص ۳۰۰) مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے لکھا ہے کہ OF RELIGIONS AND ETHICS ENCYCLOPAEDIAمیں مقالہ SEVEN SLEEPERS (سات سونے والے )کےمصنف نے مذکورہ مدت تین سوسات (۳۰۷)لکھی ہے۔ (معرکۂ ایمان و مادیت ،بک برادرز،لائل پور(پاکستان)۱۹۷۲ءص ۳۰)۔ مولانا نےاپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ مورخین نے دوحکم رانوں کے نام لیے ہیں ۔ایک ڈیسیس ، جس کے زمانے (۲۴۹۔۲۵۱ء)میں اصحاب کہف روپوش ہوئے اور دوسراتھیوڈیسیس ، جس کے زمانے (۴۰۸۔۴۵۰)میں وہ بیدار ہوئے ۔ اس طرح درمیانی مدت دوسوسال قرار پاتی ہے۔لیکن ضروری نہیں ہے کہ روپوشی کا واقعہ ڈیسیس کے دور میں پیش آیا ہو ۔اس لیے کہ اس کو بہت کم مدت آزادانہ حکم رانی کا موقع ملا اور یہ مدت بھی مسلسل جنگوں میں گزری ۔اس لیے اس کا امکان بہت کم ہے کہ اس مدت میں اسے مشرقی یونانی شہروں کے دورے کا موقع ملا ہو۔زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ روپوشی کا واقعہ اس سے قبل کے حکم راں پیڈرین کے زمانے میں پیش آیا ہو،جس نے ۱۱۷ء سے ۱۳۸ء تک حکومت کی تھی اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ۱۲۹ء سے ۱۳۴ء تک مشرقی ریاستوں کا دورہ کیا تھا ۔یہ مان لیاجائے تو روپوشی کی مدت تین سو (۳۰۰) سال قرار پاتی ہے۔ (حوالۂ سابق ص ۳۲۔۳۶)
بہ ہر حال مولانا مودودیؒ کی یہ رائے کہ ’’ وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر نہیں ، بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے، اس رائے میں وہ منفرد نہیں ہیں ، بلکہ قدیم وجدید مفسرین کی ایک بڑی تعداد ان کی ہم نواہے، اس لیے اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسے ان کی چوک اور غلطی قراردے کر اس پر تنقید کرنے اور اس سے اعلان براءت کرنے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ۔