فضیلت ِ رمضان پر مروی ایک حدیث کی تحقیق

رمضان کی فضیلت پر ایک حدیث عموماً بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اولہ رحمۃ و اوسطہ مغفرۃ و آخرہ عتق من النار‘‘ (اس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے) ہمارے یہاں ایک اہل ِ حدیث عالم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس کو رمضان کی فضیلت میں نہیں بیان کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو ہم عرصہ سے سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں ، اس لیے ان کی بات عجیب سی لگی۔ بہ راہ کرم تحقیق کرکے بتائیں ، کیا ان کی بات صحیح ہے؟
جواب

یہ حدیث احادیث ِ نبوی کے مشہور مجموعہ مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصوم میں شامل ہے۔ صاحب ِ مشکوٰۃ نے اس کے سلسلے میں امام بیہقی کی شعب الایمان کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ابن خزیمہ کی صحیح، ابن حبان کی کتاب الثواب، سیوطی کی تفسیر الدر المنشور اور متقی ہندی کی کتاب کنز العمال اور دیگر کتابوں میں بھی مروی ہے۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس میں دو اعتبار سے ضعف پایا جاتا ہے۔
۱- یہ روایت حضرت سلمان فارسیؓ سے منسوب ہے۔ ان سے اس کی روایت مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیبؒ نے کی ہے، جب کہ حضرت سلمان فارسیؓ سے حضرت سعید بن المسیب کی ملاقات ثابت نہیں ہے، اس بنا پر یہ روایت منقطع ہے۔
۲- اس کی سند میں ایک راوی علی بن زید بن جدعان ہے، جسے تمام مشہور ناقدین حدیث مثلاً حافظ ابن حجر، احمد، یحییٰ بن معین، نسائی، ابن خزیمہ جوز جانی، دار قطنی، ابو زرعہ، عقیلی، ذہبی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی نے اس روایت کو اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ میں درج کیا ہے اور اسے ’منکر‘ قرار دیا ہے۔ قدیم محدثین میں امام ابو حاتم رازی اور امام عینی نے بھی اس روایت کو منکرکہا ہے۔
علمائے کرام کا نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ فضائل کے باب میں ضعیف احادیث قابل ِ استدلال ہیں ، لیکن یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ کسی عمل کی فضیلت بیان کرنے کے لیے جب قرآن کریم کی آیات اور صحیح احادیث موجود ہوں تو ضعیف احادیث کو کیوں پیش کیا جائے؟ اس صورت میں تو ان سے اجتناب ہی اولیٰ ہے۔