دلہن کے لیے پالکی کا استعمال

یہاں شادی بیاہ کے مواقع پر دلہن کو پالکی میں بٹھا کر محرم و نامحرم ہرکس و ناکس اٹھا کر دولہا کے گھر تک لے جاتے ہیں ۔ یا پہاڑی راستے کو عبور کرکے روڈ پوائنٹ تک لے جاتے ہیں ۔ ایسا کرنے میں کوئی شرعی ممانعت تو نہیں ہے؟ آں حضور ﷺ کے زمانے میں اس قسم کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں ؟ پہاڑی علاقوں میں بسا اوقات سخت نشیب یا چڑھائی پر دلہن کو لے جانا پڑتا ہے۔ اس سے اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دلہن کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن سے ایک قسم کی ہمیشہ کی جدائی کی فکر ہوتی ہے، مزید برآں سخت سفر کی دقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لیے پالکی کا استعمال اس کے لیے ایک بھروسہ و تسلی کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیجیے کہ کیا ایسے حالات میں پالکی کا استعمال جائز ہوگا؟

بدلے کی شادی

ہمارے ملک کے بعض حصوں میں بدلے کی شادیوں کا رواج ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے رسائل و مسائل جلد دوم میں لکھا ہے کہ ’’عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا، جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے، جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔‘‘ مولانا مودودیؒ نے شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں : ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنا لڑکا دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ہزار روپیہ) مقرر کیے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے، دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
آگے مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ ’’پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے فقہاء کے اختلاف کی تفصیل نہیں دی ہے۔ البتہ خود ان کے نزدیک تینوں صورتیں خلاف شریعت ہیں ۔ بہ راہِ کرم موخر الذکر دونوں صورتوں میں اختلافِ فقہاء کی کچھ تفصیل فراہم کردیں ۔

عورت کا حق ِ مہر

ایک پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں جواب سے نوازیں ۔ ہمارے یہاں ۱۹۸۴ میں ایک نکاح ہوا تھا۔ اس وقت لڑکے کے والد کی اجازت سے سڑک کی ایک کنال زمین (ایک بیگھے کا چوتھائی حصہ) اور ایک عدد اخروٹ کا درخت لڑکی کا مہر مقرر ہوا تھا۔ آج تقریباً بائیس سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد کسی گھریلو جھگڑے کی وجہ سے لڑکی کا حصہ ہڑپ کیا جارہا ہے۔ لڑکے کا باپ کہتا ہے کہ میرا لڑکا اپنے طور سے اپنی بیوی کا مہر ادا کرے اور میری زمین اور اخروٹ کا درخت مجھے واپس کردے۔ ہاں ، میرے مرنے کے بعد میری وراثت میں سے اس کے حصہ میں جو جائیداد آئے اس میں سے وہ ایک کنال زمین اور اخروٹ کا درخت اپنی بیوی کو دے سکتا ہے۔ اس لڑکے کا ایک چھوٹا بھائی ہے وہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ میرے بڑے بھائی کی طرف سے، جو مہر اس کی بیوی کو دیا گیا ہے وہ میری بیوی کے مہر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ کیوں کہ آج کل ایک کنال زمین کی قیمت چار لاکھ روپیے سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور اس پر مستزاد کئی ہزار کی قیمت کا اخروٹ کا درخت بھی ہے۔ اس لیے یہ بڑی ناانصافی ہوگی کہ میرے بڑے بھائی کی بیوی کو زیادہ مہر مل جائے اور میری بیوی کو کم مہر ملے۔

بیوی کا حق ِ سُکنیٰ

کیا بیوی اپنے شوہر سے، اس کے گھر والوں سے الگ، گھر لینے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ کیا شرعاً ایسا کرنا صحیح ہے؟

بیوی کی کمائی میں شوہر کا حق

کچھ لوگ عورتوں کی ملازمت کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں کہ جو رقم تنخواہ کے طور پر عورت حاصل کرتی ہے وہ مرد پر حرام ہے۔ بہ راہ کرم اس بارے میں وضاحت فرمائیں ؟

نکاح میں دھوکہ

ایک اہم مسئلہ درپیش ہے۔ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ ایک صاحب کی شادی کو تین ماہ سے کچھ زائد ہوئے ہیں ۔ شادی کے بعد لڑکی ایک دن سسرال میں گزار کر میکے چلی گئی۔ وہاں سے ٹھیک پندرہ دن بعد جب وہ دوبارہ سسرال آئی تو اس کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ نفسیاتی مریضہ ہے۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟
(الف) کیا یہ رشتہ باقی رہنے دیا جائے؟ جب کہ لڑکی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور لڑکا نارمل ہے۔
(ب) اگر طلاق کی نوبت آجائے تو کیا لڑکی کو صرف مہر کے ساتھ رخصت کیا جائے؟ یا مہر کے ساتھ دوسری چیزیں (جیسے جائیداد، مکان وغیرہ) بھی واپس کردی جائیں ؟
(ج) لڑکی والوں کی طرف سے دھوکہ دیا گیا ہے۔ یعنی انھوں نے اس بات کو قطعی صیغۂ راز میں رکھا کہ لڑکی ابنارمل (Abnormal)ہے۔ ایسی صورت میں کیا پنچایت کے ذریعے ان پر تاوان (Penalty) عائد کیا جاسکتا ہے؟
آپ سے استدعا ہے کہ مذکورہ سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔

زوجین کے درمیان بے اعتمادی اور ناموافقت کا حل

ایک نجی مسئلہ میں شرعی رہ نمائی کی غرض سے رجوع کر رہا ہوں ۔ میرے دن نہایت کرب میں گزر رہے ہیں ، اس لیے درخواست ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، مجھے رہ نمائی سے نوازیں ۔ میری شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، جس سے ایک اولاد ہے۔ میری بیوی پہلے کسی اور سے محبت کرتی تھی، مگر شادی مجھ سے ہوگئی۔ اس نے اپنے سابقہ تعلقات کو مجھ سے چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ شروع ہی سے وہ میرے سامنے اس شخص کی مبالغہ آمیز تعریف اور اس سے تعلق ِ خاطر کا اظہار کرتی رہی ہے۔ بیوی کی ذاتی کتابوں اور ڈائریوں میں میں نے مخصوص انداز میں مذکورہ شخص کا نام، پتہ اور فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا پایا ہے۔ مزید برآں دوران سفر اس سے ایسی حرکتوں کا صدور ہوتا ہے (جیسے اجنبی مردوں سے نظریں ملانا، ان سے بلاتکلف باتیں کرنا وغیرہ) جو مجھے قطعاً پسند نہیں ہیں ۔ ان حالات میں میری نظر میں بیوی کا کردار مشکوک ہوگیا ہے۔ میں سخت ذہنی الجھن اور پریشانی میں ہوں ۔ میری زندگی میرے لیے بوجھ اور مصیبت بنی ہوئی ہے۔ کیا میں بیوی کے بارے میں شک کرنے میں حق بہ جانب ہوں ؟ کیا ایسی صورت میں میرے لیے طلاق دینا جائز ہے؟ اگر طلاق دوں تو اس کی وجہ کیا بتاؤں ؟ طلاق کی صورت میں غیرشرعی عدالت کے ذریعے مجھ سے ناروا مطالبات (مال جائیداد وغیرہ) کیے جائیں گے۔ کیا آخرت میں مجھے ان کا بدل ملے گا؟ ان حالات میں بیوی کے ساتھ نباہ کرنا کیا صبر ہے، جس پر میں عند اللہ ماجور ہوں گا؟ یا بے غیرتی ہے، جسے کسی شریف آدمی کو ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے؟ ان سوالات سے میں ذہنی طور پر از حد پریشان ہوں ۔ بہ راہ کرم میرے مسائل کا شریعت کی روشنی میں حل تجویز فرمائیں ۔

طلاق کے بعد حلالہ کا حکم

میں فوج میں ملازمت کر رہا ہوں ۔ میرے بہت سے ساتھی غیرمسلم ہیں ، وہ وقتاً فوقتاً اسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ ایک موقعے پر ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد اسے واپس لینے کے لیے حلالہ کرانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو طوائف گیری جیسا کام ہوا۔‘‘ میں نے انھیں جواب دینے کی کوشش کی لیکن اس جواب سے وہ مطمئن نہ ہوسکے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔ یہ اعتراض عموماً غیرمسلموں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

دورانِ عدّت عورت کا لباس

کیا شوہر کی وفات کے بعد عورت کے لیے دورانِ عدت سونے یا چاندی کے زیورات، جیسے چوڑی، بندے، انگوٹھی اور سونے کی زنجیر (Chain)والی گھڑی کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ زیور کے علاوہ اس کو سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اسے کیسا لباس پہننا چاہیے؟

مسئلہ ظہار

ہمارے علاقے میں ایک عجیب طرح کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک صاحب نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ بعد میں وہ پشیمان ہوئے۔ مقامی علماء سے مسئلہ معلوم کیا۔ بعض علماء کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس جملے سے ظہار ثابت ہوگیا۔ اب بیوی اس شخص پر حرام ہوگئی۔ظہار کا مسئلہ قرآن میں سورۂ مجادلہ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ میں نے بعض کتب ِ تفسیر سے رجوع کیا، لیکن مسئلہ منقح ہوکر میرے سامنے نہ آسکا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سلسلے میں فقہاء کے اختلافات بیان کردیے ہیں ۔ اپنی طرف سے کوئی قطعی بات نہیں لکھی ہے۔ میری نظر میں ظہار میں صرف خونی رشتے ماں ، بہن، بیٹی ، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا صورت مسئولہ میں ظہار ثابت ہوگیا؟