ولیمہ کیسا ہو؟

شریعت میں نکاح کے موقع پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس موقع پر آدمی بکرا ذبح کرے اور گوشت کھلائے۔ اگر کسی شخص کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہو اور وہ اتنی وسعت نہ رکھتا ہو کہ بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کرسکے تو کیا محض ٹی پارٹی کردینے سے اللہ کے رسول ﷺ کے حکمِ ولیمہ کا منشا پورا ہوجائے گا؟
جواب

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا۔ اس کا علم رسول اللہ ﷺ کو ہوا تو آپؐ نے انھیں مبارکباد دی اور فرمایا:
اَوَلَمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ۔(۱)
’’ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری کے ذریعے۔‘‘
آپؐ نے خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح کے موقع پر آپؐ نے بکری ذبح کروائی تھی اور لوگوں نے شکم سیر ہوکر گوشت روٹی کھائی تھی۔ (۲)
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولیمہ میں گوشت کھلانا ضروری ہے۔ دعوت میں کچھ بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ غزوۂ خیبر کے بعد آں حضرت ﷺ نے حضرت صفیہؓ سے نکاح کیا تو ولیمہ میں صحابہ کو ’حیس‘ کھلایا تھا (۳) ’حیس‘ اس کھانے کو کہتے تھے جسے کھجور، پنیر اور گھی ملا کر تیار کیا جاتا تھا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صفیہؓ سے نکاح کے موقع پر آں حضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ صحابہ کرامؓ کو ولیمہ کے لیے بلا کر لاؤ۔ اس موقع پر گوشت روٹی کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ صحابہ آئے تو دسترخوان بچھا دیا گیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا۔‘‘ (۴) حضرت صفیہ بنت شیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات سے آں حضرتؐ کے نکاح کے موقع پر ولیمہ میں صرف دو مد (ایک پیمانہ) جو کا استعمال کیا گیا تھا ۔ (۱)
نکاح ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی اس موقع پر اپنی خوشی میں اپنے اعزہ اور احباب کو شریک کرے۔ اب یہ اس کے اوپر ہے کہ وہ ان کی ضیافت اور لذتِ کام و دہن کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق جو چاہے انتظام کرے۔