طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں

زوجین میں اختلاف اور تنازع ہونے کے بعد بیوی شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہوگئے۔ اس عرصے میں اس نے کوئی ربط و ضبط رکھا نہ شوہر کے گھر آئی۔ کچھ عرصہ پہلے چھے مقامی حضرات نے درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہی۔ وہ شوہر کے گھر اکٹھا ہوئے اور وہاں اس کی موجودگی میں موبائل سے اس کی بیوی سے رابطہ کیا گیا، اس کو کافی سمجھایا بجھایا گیا، مگر وہ آنے کے لیے تیار نہ ہوئی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ بالآخر اسی مجلس میں شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ اس وقت موبائل آن تھا۔ طلاق کے الفاظ سن کر بیوی نے ’بہت اچھا‘ کہا، جسے وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ وہیں طے پایا کہ دوران ِ عدت لڑکی کو ہر ماہ تین ہزار روپے بھیجے جائیں ۔ چنانچہ لڑکی کے کپڑے وغیرہ ایک اٹیچی میں رکھ کر اور عدت کے ایک ماہ کا خرچ تین ہزار روپے بھیج دیے گئے، جسے لڑکی والوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے ماہ بھی تین ہزار روپے بھیجے گئے، جو قبول کرلیے گئے۔ اب ڈھائی ماہ بعد لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے طلاق سنی ہی نہیں ۔ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟
جواب

جہاں تک مذکورہ مسئلے کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ طلاق ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں ہے۔ اس کی غیر حاضری میں شوہر طلاق دے دے تو طلاق ہوجائے گی اب جبکہ شوہر نے چھے لوگوں کی موجودگی میں طلاق دی ہے تو اس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے۔ اگر اس نے اس اختیار کو استعمال کیا ہے تو اس کا انعقاد ہوجائے گا۔ قرآن و حدیث میں کہیں صراحت ہے نہ اشارہ کہ طلاق بیوی کی موجودگی میں یا اس کو سنا کر دینی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک طلاق ہونے کی صورت میں دوران ِ عدت (تین حیض کی مدت) شوہر کو رجوع کرنے کا حق رہتا ہے۔ وہ زبان سے کہہ دے یا عمل سے ظاہر کردے کہ اس نے رجوع کرلیا ہے تو نکاح باقی رہے گا اور عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اگر عدت گزر گئی تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں ۔