غلاف کعبہ کا جلوس اور جھوٹے الزامات

غلاف کعبہ کی نمائش بجاے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سی دیگر بدعات، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمائش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے ،عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں ، نذرانے چڑھاے گئے ہیں ، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں ،حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے ہیں ۔ پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھا یا گیا۔
معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبۂ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لیے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا۔ چنانچہ ان نتائج وعواقب کی ذمہ داری آپ پر براہِ راست عائد ہوتی ہے۔

غلافِ کعبہ اورشعائر اﷲ

غلاف کعبہ کو قرآن وحدیث میں شعائر اﷲ کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا،اس لیے عملاً یا اعتقاداً اس کی تقدیس وتعظیم ضروری نہیں ۔یہ بس کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے،اس سے زائد کچھ نہیں ، خواہ یہ کعبے کی نیت سے بنے یا نہ بنے۔کعبے سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والی اگر ہرشے کا شمار شعائر اﷲ میں ہونے لگے اور اس کی تعظیم لازم سمجھی جائے تو پھر تعمیر کعبہ کے لیے جانے والا پتھر یا اس طرح کی دوسری اشیا بھی قابل تعظیم ٹھیریں گی۔

غلافِ کعبہ اوربدعتِ مذمومہ

غلاف کی نمائش وزیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔کیوں کہ نبیﷺ اور خلافت راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالاں کہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔اگر غلاف کی نمائش کرنا اور اس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے جنھیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائر اﷲ قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ ومذموم ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔

غلافِ کعبہ اور تبرک

جو غلاف ابھی چڑھایا نہ گیا ہو بلکہ چڑھانے کے لیے تیار کیا گیا ہو، وہ تو محض کپڑا ہے، آخر وہ متبرک کیسے ہو گیا کہ اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے اہتما م کے ساتھ جلوس کی شکل میں روانہ کیا جائے۔ پھر جو غلاف خانہ کعبہ سے اُترتا ہے، اس کی تعظیم وتکریم کیوں روا نہیں رکھی جاتی اور فقہا نے اس کا عام کپڑے کی طرح استعمال واستفادہ کیوں جائزرکھا ہے۔

صحابہ کرامؓ پر تنقیدکا ایک صریح بہتان

ترجمان القرآن،دسمبر ۱۹۵۵ میں جناب نے حضرت صدیقؓ کی بندش کفالت مسطح کو غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔کیا صدیقؓ کا نبوت سے صرف بیٹی ہی کا تعلق تھا؟ بالفرض اگر حضرت کے کسی دوسرے حرم پر یہ بہتان ہوتا تو کیا حضرت صدیقؓ کو غیرت نہ آتی؟ کیا وہاں اَلْحُبُّ لِلّٰہ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ کا جذبہ کارفرما نہ تھا؟ ولایَاتِلِ اُولُوا الْفَضْلِ سے استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیوں کہ یہاں صرف کفالت کا کھولنا نہایت نرم لہجے میں مقصود تھا۔ چنانچہ لفظ اُولْوا الْفَضْلِ وَالسَّعَۃِ اور پھر اَلا تُحِبُّون اَن یَّغْفِرَ اللّٰہ لَکُمْ (النور:۲۲) سے ان کے پاکیزہ جذبات سے معافی کی اپیل ہے۔اس میں عتاب کی بو بھی نہیں ۔ اس کو وعید تصور کرنا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔علاوہ ازیں یہاں کفالت کی طرف تعرض کیا گیا ہے۔بندش کفالت کے اصل محرکات کو نہیں چھیڑا گیا ،جس کو آپ نے غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔اگر یہ محرکات غیر اسلامی ہوتے تو اَنْ یُّوْتُوا اُولِی الْقُرْبٰی کے بجاے انھی محرکات کا آپریشن ہوتا، واللّٰہ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ۔ منبع فساد کو چھوڑ کر شاخوں کا انسداد قرآن کی حکیمانہ شان سے بعید ہے۔کفالت تو ان الفاظ سے کھل گئی، لیکن یہ منبع فساد غیر اسلامی حمیت تو ان کے دل میں ویسے ہی مستحکم رہی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے متعلق اسی ترجمان [دسمبر ۱۹۵۵ئ]میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ غالباًیہی شخصی عظمت کا تخیل تھا جس نے اضطراری طور پر حضرت عمرؓ کو تھوڑی دیر کے لیے مغلوب کردیا۔ کیا نبی کی شخصیت اور اس کی عظمت کا تخیل اسلام میں ممنوع ہے؟ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ({ FR 1115 }) الحدیث کا کیا معنی؟ باقی رہا قانونِ ربانی کے مقابلے میں نبوت پرستی یا شخصیت پرستی تو محبوب دو عالم ﷺ کی زندگی میں تو عمرؓ شخصیت پرست نہ تھے۔ بعد از انتقال یہ شخصیت پرستی کہاں سے ان کے دل میں گھس گئی؟ اساریٰ بدر،صلح حدیبیہ، مسئلہ حجاب،رئیس المنافقین کا جنازہ وغیرہ لاتعداد واقعات موجود ہیں ۔صحابہ کرامؓ اور خلفاے راشدین مہدیین کے متعلق ہمیں کس حد تک سوء ظن جائز({ FR 1116 }) ہے؟ کیا ان حضرات کے افعال کی ان توجیہات کے علاوہ اور توجیہ ناممکن تھی؟ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ({ FR 1117 }) اور أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ({ FR 1118 }) کا کیا مقصد ہوگا؟

صحابہ کرامؓ کے متعلق عقیدۂ اہلِ سنت

میں آپ کی کتاب خلافت و ملوکیت کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں ۔ آپ کی چند باتیں اہل سنت و الجماعت کے اجماعی عقائد کے بالکل خلاف نظر آ رہی ہیں ۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا بھی عیب بیان کرنا اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے خلاف ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہو جائے گا۔ آپ کی عبارتیں جو اس عقیدے کے خلاف ہیں وہ ذیل میں نقل کرتا ہوں :
’’ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے دوسرے بزرگ کے ذاتی مفاد سے اپیل کرکے اس تجویز کو جنم دیا۔‘‘
(خلافت و ملوکیت ،ص ۱۵)
’’اب خلافت علی منہاج النبوۃ کے بحال ہونے کی آخری صورت یہ باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہؓ یا تو اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کا معاملہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیتے یا اگر قطع نزاع کے لیے اپنی زندگی ہی میں جانشینی کا معاملہ طے کر جانا ضروری سمجھتے تو مسلمانوں کے اہلِ علم و اہلِ خیر کو جمع کرکے انھیں آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہدی کے لیے امت میں موزوں تر آدمی کون ہے۔ لیکن اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف و طمع کے ذرائع سے بیعت لے کر انھوں نے اس امکان کا بھی خاتمہ کر دیا۔‘‘ (خلافت و ملوکیت، ص۱۴۸)
براہِ کرام آپ بتائیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں آپ اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے کو غلط سمجھتے ہیں یا صحیح؟

اختیاراَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْن کا شرعی قاعدہ

اختیاراَھْوَن الْبَلِیَّتَیْن (دو بلائوں میں سے کم درجے کی بلا کو اختیار کرنے کا مسئلہ) ایک سلسلے میں مجھ کوعرصے سے کھٹک رہا ہے۔آج کل اس مسئلے کا استعمال کچھ اس طرح ہورہا ہے کہ وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔
ہم مسلمانوں میں سے چوٹی کے حضرات(جیسے علماے دیو بند،مولانا حسین احمد مدنی، اور مولانا ابوالکلام آزاد)کا جماعتِ اسلامی کے پیش کردہ نصب العین سے اختلاف ایک ایسا سوال ہے جس پر میں دل ہی دل میں برابر غور کرتا رہا ہوں ۔ میرا خیال یہ ہوا کہ ان حضرات کی نگا ہ میں نصب العین کو ترک کرنا اھونہوگا لہٰذا انھوں نے ترک کیا اور جماعتِ اسلامی کے نزدیک اس کا قبول کرنا اہون ہوگالہٰذا انھوں نے اسے اختیا ر کرلیا۔میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ترجمان القرآن میں مولانا مدنی کی ایک تحریر پڑھی جس میں واقعی یہ اقرار موجودتھا کہ اَھْوَنُ الَبِلیَّتَیْن کو انھوں نے اختیار فرمایا ہے۔ اس پر مجھ کو حیرت ہوئی۔پوری بات اور آگے چل کر کھلی جب ’’الانصاف‘‘(انڈیا) میں جمعیت کی پالیسی کے متعلق مولانا کا یہ بیا ن نظر سے گزرا کہ کانگریس اور کمیونسٹ جو دو بلیتین تھیں ان میں سے ہم نے اھون یعنی کانگریس کواختیار کیا ہے۔
میں یہ سمجھتا تھا کہ قرآن نے حالت اضطرار میں سؤر کا گوشت کھالینے کی اجازت جہاں دی ہے وہاں بلیتین سے مراد اس حرام کے ترک یا اختیار کی دومتبادل صورتیں ہیں ۔یعنی یا تو آدمی سور کھا کر جان بچا لے یا نہ کھا کر مقام عزیمت پر فائزہونے کی فضیلت حاصل کرے۔ لیکن کیا اس سے یہ بھی مراد ہے کہ دو حرام چیزوں میں سے ایک کو اہون سمجھ کر منتخب کیاجائے۔ مثلاً ایک طرف سؤر کا گوشت ہو اور دوسری طر ف گدھ کا گوشت، تو کیا ایک فاقے سے مرنے والا یوں سوچے گا کہ سؤر کا گوشت زیادہ ثقیل ہے اور گدھ کا گوشت زود ہضم ہے لہٰذا اہون گدھ کا گوشت ہوا؟

منصب ِ تجدید اور وحی وکشف

رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری وفروری۱۹۵۱ء کے صفحہ۲۲۶ پر ایک سوال کے جواب کے دوران میں تحریر فرمایا گیا ہے کہ:
’’پچھلے زمانے کے بعض بزرگوں نے بلاشبہہ اپنے متعلق کشف و الہام کے طریقے سے خبر دی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مجد د ہیں ۔لیکن انھو ں نے اس معنی میں کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کو مجدد تسلیم کرنا ضروری ہے اور جو ان کو نہ مانے وہ گمراہ ہے۔‘‘
یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ،کیوں کہ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ نے’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں بڑے زور کے ساتھ یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے مطلع فرمایا ہے کہ تو اس زمانے کا امام ہے۔ چاہیے کہ لوگ تیری پیروی کو ذریعۂ نجات سمجھیں ۔ شاہ صاحب کی کتاب ’’تفہیمات‘‘ کااصل حوالہ مع ترجمہ درج ذیل ہے:
قد منَّ اللّٰہ سبحانہ علیَّ وعلٰی أھل زمانی، بأن منحنی طریقا من السلوک ھی اقرب الطرق، وھی مرکبۃ من خمس اقترابات،اعنی الایمان الحقیقیّ وقرب النوافل، وقرب الوجوب، وقرب الفرائض، وقرب الملکوت۔ وجعل ھذہ الطریقۃ غایۃ، من اراد ھا آتاھا اللّٰہ تعالی. وفھمنی ربی۔ جل جلالہ۔ انا جعلناک اِمام ھذہ الطریقۃ، وأوصلناک ذروۃ سنامھا، وسددنا طرق الوصول الٰی حقیقۃ القرب کلھا الیوم غیر طریقۃ واحدۃ، وھو ]کذا: وھی [ محبتک والانقیاد لک، فالسماء لیس علٰی من عاداک بسمائٍ ،ولیست الأرض علیہ بأرضٍ، فأھل المشرق والمغرب کلہم رعیتک وانت سلطانھم، علموا او لم یعلموا، فان علموا فَازُوْا، وان جَھِلُوا خَابُوْا ۔({ FR 1119 })
’’ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے زمانے کے لوگوں پر یہ احسان کیا کہ اس نے مجھے ایک ایسا طریقۂ سلوک عطا کیا ہے کہ جو سب طریقوں سے قریب تر ہے، اور اس میں پانچ قسم کے قرب کے ذریعے ہیں ۔ یعنی ایک تو ایمان حقیقی کا، دوسرا قرب نوافل کا،تیسرا قرب وجوب، چوتھا قرب فرائض اور پانچواں قرب ملکوت۔ اور اس کو ایسا عمدہ غایت بنایا ہے کہ جو کوئی بھی اس کا ارادہ کرے گا، وہ مراد کو پہنچے گا۔ اور میرے رب نے مجھے مطلع فرمایا ہے کہ ہم نے تجھے اس طریقے کا امام مقرر کیا ہے اور اس کی اعلیٰ بلندی پر پہنچایا ہے، اور ہم نے آج کے روز سے باقی سب طریقوں کو حقیقت قرب تک پہنچنے سے مسدود کردیا ہے،بجز اس طریقے کے جو تجھے دیا گیا اور وہ ایک ہی طریقہ ہے جو کھلا رکھا گیا ہے۔لوگوں کو چاہیے کہ تجھ سے محبت کریں اور تیری فرما ں برداری کو ذریعۂ نجات سمجھیں ، اور اب آسمانی برکات اس شخص پر نہیں ہوں گی جو تیرے ساتھ بغض اور عداوت رکھے گا اور نہ وہ ارضی برکات کا مورد ہوگا، اور مغرب او ر مشرق کے لوگ تیری رعیت کردیے گئے ہیں اور تو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا ہے،خواہ وہ لوگ تیر ی حقیقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں ۔اگر واقف ہوں گے تو فائزالمرام ہوں گے اور اگر بے خبر رہیں گے تو خسارہ اور ٹوٹا پائیں گے۔‘‘
کیا جناب شاہ صاحب کا یہ دعویٰ درست تھا یا نہیں ؟اگر ان کا دعویٰ درست تھا تو پھر ’’ترجمان‘‘ کی مذکورۂ بالا عبارت درست نہیں ہے۔
اس عبارت کے بعد’’ترجمان‘‘میں لکھا گیا ہے کہ:
’’ دعویٰ کرکے اس کے ماننے کی دعوت دینا اور اسے منوانے کی کوشش کرنا سرے سے کسی مجدد کا منصب ہی نہیں ۔‘‘
نیز یہ کہ:
’’جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ خود اپنے اس فعل ہی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فی الواقع مجدد نہیں ۔‘‘
ان ارشادات کی بنیاد قرآن کریم ہے یا احادیث نبویہ ؐ،یا اپنے اجتہاد کی بِنا پر یہ فتویٰ دیا گیا ہے؟
رسالہ مذکورہ کے اسی صفحے پر فقرہ نمبر۶کے ماتحت لکھا گیا ہے کہ:
’’ کشف والہام وحی کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں ۔اس میں وہ کیفیت نہیں ہوتی کہ صاحب کشف والہام کو آفتاب روشن کی طرح یہ معلوم ہو کہ یہ کشف والہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہورہا ہے۔‘‘
اگر اُمت محمدیہ کے کاملین کے الہام وکشوف کی یہ حقیقت ہے تو پھر ان کے خیر امت ہونے کی حالت معلوم شد۔ حالاں کہ پہلی اُمتوں میں عورتیں وحی یقینی سے مشرف ہوتی رہی ہیں ، اور خدا کے ایسے بندے بھی ہوتے رہے ہیں جن کے کشف والہام کا یہ عالم تھا کہ ایک اولوالعزم نبی کو بھی سوال کرکے ندامت اٹھانی پڑی۔
مگر سبحان اﷲ! اُمت محمدیہ کے کاملین کے کشوف والہام عجیب قسم کے تھے کہ ان کو خود بھی یقین نہ تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا نہیں ۔ پھر اﷲ تعالیٰ کو ان کو اس قسم کے الہامات وکشوف دکھانے کی ضرورت کیا پڑگئی جن سے نہ کوئی دینی فائدہ متصور تھا اور نہ ہی صاحب کشف والہام کے لیے وہ موجب ازدیادِ ایمان بلکہ اُلٹا موجب تردّد ہونے کے سبب ایک قسم کی مصیبت تھے۔

کوّے کی حلّت وحُرمت

کیا کوّے کا گوشت حلال ہے؟ نیز یہ تحریر فرمائیں کہ کون کون سے جانور اور پرندے حرام یا حلال ہیں ؟ نیز دُرِّمختار کا بعض لوگ حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں کوّے کے گوشت کو حلال قرار دیا گیا ہے، یہ کہاں تک درست ہے؟