غلاف کعبہ کا جلوس اور جھوٹے الزامات

غلاف کعبہ کی نمائش بجاے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سی دیگر بدعات، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمائش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے ،عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں ، نذرانے چڑھاے گئے ہیں ، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں ،حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے ہیں ۔ پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھا یا گیا۔ معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبۂ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لیے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا۔ چنانچہ ان نتائج وعواقب کی ذمہ داری آپ پر براہِ راست عائد ہوتی ہے۔
جواب

واقعات کی اس تفصیل] سوال نمبر۹۳۹] سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی ایسا پروگرام نہ تھا جو میں نے خود کسی اچھے یا برے مقصد سے شروع کیا ہو۔بلکہ یہ پروگرام اس وقت بنایا گیاجب عوام میں ایک جذبہ خود بخود بھڑک اٹھا تھا اور اس کے بنانے کی اصل غرض یہ تھی کہ اس جذبے کے سیلا ب کو منکرات کی طرف جانے اور صحیح راستے پر موڑنے کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا ہے،کیا جائے۔اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہ بہت زیادہ مکروہ راستہ اختیار کرلیتا اور کسی کے روکے نہ رکتا۔اب آگے بڑھنے سے پہلے میں مختصراً یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ فی الواقع ہوا کیا ہے اور اس کو بنا کیا دیا گیا ہے۔
لاہور شہر میں مجلس انتظامیہ کے زیرا ہتمام غلاف کی نمائش چار دن عورتوں کے لیے اور تین دن مردوں کے لیے رہی اور ایک ایک دن مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحد ہ نمائش کا انتظام لاہور چھائونی میں بھی کیا گیا۔ ان مواقع پر غلاف کو سجدہ کرنے،یا اس کاطواف کرنے کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ کارکنوں نے لوگوں کو حدود شرعیہ سمجھانے اور ان کی خلاف ورزی سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ کسی قسم کے نذرانے اور چڑھاوے نہ چڑھانے دیے گئے۔ بہت بڑی اکثریت نے کارکنوں کی تلقین کو قبول کیا اورحدود کی پابندی کی۔ لیکن جہاں ہزاروں لاکھوں آدمی ٹوٹ پڑے ہوں ، وہاں یہ ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بھی حد سے تجاوز نہ کرنے دیا جائے۔اس سیلاب میں اگر کچھ لوگ منع کرنے کے باوجود غلاف کو چوم بیٹھے،یا کوئی بندۂ خدا غلاف ہی سے دعا مانگ بیٹھا، یا مردوں کی نمائش میں کچھ عورتیں خود اپنے گھر والوں کے ساتھ آگئیں ، تو اس کی ذمہ داری آخر منتظمین پر کیسے عائد ہوجائے گی۔
لاہور کا جلوس میں نے خود دیکھا ہے اور شروع سے آخر تک اس میں شریک رہا ہوں ۔ ہوائی اڈے تک پہنچتے پہنچتے اس میں ۶،۷ لاکھ آدمی شامل ہوگئے تھے اور آٹھ میل لمبا راستہ تھا۔اس پورے راستے میں تمام سینمائوں اور دکانوں پر سے عورتوں کی تصاویر اور ہر قسم کی فحش تصویریں ہٹا دی گئی تھیں یا چھپا دی گئی تھیں ۔ریڈیو پر گانوں کی تمام آوازیں بند ہوگئی تھیں ۔ پورا جلوس اﷲ اکبر اور لا الٰہ الا ﷲ کے ذکر کے سوا کوئی چیز قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔اتنے بڑے ہجوم میں ایک جیب نہیں کٹی۔ کسی نے سگریٹ نہیں پیا۔ کوئی غنڈہ گردی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔عورتیں منع کرنے کے باوجود آئیں ، مگر کوئی ادنیٰ سا واقعہ بھی عورتوں کو چھیڑنے کا سننے میں نہ آیا۔ ({ FR 990 })
پورے شہر پر اس وقت نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ بعض لوگ جن کی جوتیاں مال روڈ پر جلوس میں چھوٹ گئی تھیں ،انھوں نے کئی گھنٹے بعد ہوائی اڈے سے واپس آکر اپنی جوتیاں اسی جگہ پڑی پائیں جہاں وہ چھوٹی تھیں ۔اتنی بڑی خیر میں اگر کہیں کوئی مشرکانہ یامبتدعانہ بات ہوگئی تووہ معترضین کی گرفت میں آگئی۔ حالاں کہ جہاں لاکھوں آدمی جمع ہوں ، وہاں کون اس امر کی ضمانت لے سکتا تھا کہ کوئی فرد بھی کوئی غلط کام نہ کرے گا۔ چلتے ہوئے مجمع میں سے اگر کچھ لوگ لپک کر غلاف کو چوم بیٹھے، یا کچھ لوگوں نے غلط نعرے لگا دیے، یا کوئی اور بے جا بات کر گزرے تو کیا صرف اس وجہ سے اس خیر عظیم پر پانی پھیر دیا جائے گا جو اتنے بڑے پیمانے پر اس روز شہر لاہور میں رُونما ہوئی؟ یہ تو مکھی کا سا حال ہوا کہ ساری پاک چیزوں کو چھوڑ کر وہ صرف گندگی ہی تلاش کرتی ہے اور کہیں اس کی کوئی چھینٹ پاجائے تو اسی پر جا بیٹھتی ہے۔
جو اسپیشل ٹرینیں باہر بھیجی گئی تھیں ،ان کی مفصل رپورٹ بھی میں نے لی ہے اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں ہی سے نہیں بلکہ سول ڈیفنس اور ریلوے اسکائوٹس کے ان لوگوں سے بھی لی ہے جو ان ٹرینوں کے ساتھ گئے تھے ({ FR 1019 }) ان کا متفقہ بیان ہے کہ جگہ جگہ ہزاروں ، بلکہ بعض جگہ لاکھوں آدمی غلاف دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ہر جگہ ذکر اﷲ ہی غالب رہا اور بہت کم دوسرے نعرے بلند ہوسکے۔ ہر جگہ عورتوں اور مردوں کے مجمع الگ رہے اور بہت ہی کم مقامات پر ہجوم کی کثرت کے باعث انھیں خلط ملط ہونے سے نہ روکا جا سکا۔ ہر جگہ امن وسکون سے زیارت ہوئی اور بہت کم مقامات پر حادثات پیش آئے جن کی وجہ کسی کی غفلت نہ تھی بلکہ ازدحام کی شدت تھی۔ عورتیں کثرت سے آئیں ، مگر شاذ ونادر ہی کہیں یہ واقعہ پیش آیا کہ کسی نے انھیں چھیڑا ہو۔ اتنے بڑے مجمعوں میں کسی کی جیب کٹنے کا کوئی واقعہ سننے میں نہیں آیا۔ عوام کو بڑے پیمانے پر نیکی اور بھلائی کی تلقین کی گئی اور انھیں غلاف کی زیارت کے حدود بتائے گئے۔ عموماً لوگوں نے ان حدود کا خیال رکھا اور زیادہ تر لوگ یہی دعا مانگتے دیکھے گئے کہ خدایا! جس گھر کا غلاف تو نے دکھایا ہے، خود اس گھر کو بھی دیکھنے کی توفیق عطا فرما۔ ان ٹرینوں کے ساتھ جو غلاف گئے تھے، ان میں سے کسی کا طواف ہرگز نہیں ہوا، اور نہ کسی کو غلاف کے آگے سجدہ کرتے دیکھا گیا۔ اب اگر کہیں ان لاکھوں انسانوں کے مجمع میں کوئی غلاف کو، یا غلاف لے جانے والی ٹرین کو چوم بیٹھا، یا کسی نے ٹرین کے انجن کو انجن شریف کہہ دیا، یا کارکنوں کے منع کرنے کے باوجود لوگوں نے ٹرین کے اندر پیسے پھینک دیے، یا ہجوم کی کثرت کے باعث عورتوں اور مردوں کو خلط ملط ہونے سے نہ روکا جاسکا، تو بس یہی چند واقعات ہمارے دین داروں نے اعتراض جڑنے کے لیے چن لیے اور اس سارے خیر کو نظر انداز کردیا جو اس کام میں غالب پائی جاتی تھی۔
پھر ان معترض حضرات نے محض کیڑے چننے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ جہاں کیڑے نہ تھے، وہاں اپنی طرف سے کیڑے ڈالنے میں بھی تأمل نہ فرمایا۔ مثلاً لاہور میں مجلس انتظامیہ کے علم واجازت کے بغیر اس محلہ کے لوگوں نے، جس میں غلاف تیار کرنے والی فیکٹری قائم تھی، بطور خود غلاف کا جلوس نکال ڈالا تھا۔ اس جلوس کے متعلق بڑے بڑے اتقیا وصلحا یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس کے آگے باجا بج رہا تھا اور جلوس والوں نے غلاف کو لے جاکر حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر چڑھایا۔ حالاں کہ یہ دوسری بات تو قطعی جھوٹ ہے۔ غلاف کو مزار پر چڑھانے کی روایت سرے سے کوئی اصلیت نہیں رکھتی۔ رہا باجا، تو اس کے متعلق خبریں متضاد ہیں ۔ کسی کا بیان ہے کہ بجا تھا، کسی کا کہنا ہے کہ نہیں بجا، اور کوئی کہتا ہے کہ جب جلوس گزر رہا تھا تو ایک برات آگئی جس کے ساتھ باجا تھا۔ تاہم اگر وہ بجا ہی ہو تب بھی اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر یا مجلس انتظامیہ پر عائد نہیں ہوتی۔ کیوں کہ جلوس ہماری اجازت کے بغیر ،بلکہ ہمارے منع کرنے کے باوجود نکالا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم کسی طرح بھی غلاف کو ان لوگوں سے نہ بچا سکتے تھے جن کے محلے میں وہ بن رہا تھا۔ اِلاّیہ کہ ایک ہیلی کاپٹر فراہم کیا جاتا اور غلاف کے تھان وہاں سے اڑا کر نکالے جاتے!
عجیب تر بات یہ ہے کہ ان حضرات کو سارا غم صرف اس غلاف کا ہے جو لاہور میں تیار ہوا تھا۔ کراچی میں جو غلاف بنا تھا، نمائش اس کی بھی ہوئی اور شہر در شہر وہ بھی پھرا، مگر اس کا ماتم کسی سے نہ سنا گیا۔ بلکہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا، وہ سب بھی ایسے سیاق وسباق میں بیان کیا گیا کہ وہ آپ سے آپ میرے اور جماعت اسلامی کے حساب میں پڑ گیا۔
یہ باتیں تو پھر بھی ظاہر سے تعلق رکھتی تھیں ۔کمال یہ ہے کہ ہمارے ان دین داروں کی نگاہ دور رس میرے باطن تک بھی جاپہنچی اور انھیں معلوم ہوگیا کہ میں نے غلاف کعبہ کی نمائش کا یہ سارا اہتمام کس نیت سے کیا تھا۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ میری نیت ان پر کیسے منکشف ہوگئی۔ اگر وہ علیم بذات الصدور ہونے کے مدعی ہیں تو یہ اس شرک وبدعت سے اشد چیز ہے جس پر وہ گرفت فرما رہے ہیں ۔اور اگر انھوں نے میری طرف یہ نیت محض قیاس وگمان کی بِنا پر منسوب فرمائی ہے تو شاید انھیں قرآن وحدیث میں صرف شرک وبدعت ہی کی برائی ملی ہوگی۔ بہتان وافترا کے متعلق احکام ان کی نگاہ سے نہ گزرے ہوں گے۔ (ترجمان القرآن، اپریل۱۹۶۳ء)