تدبیرِ اُمور ِکائنات

آیت يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(السجدہ:۵ )
’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی رُوداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔‘‘
کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔اس وقت میرے سامنے تفسیر کشاف ہے۔صاحب کشاف کی توجیہات سے مجھے اتفاق نہیں ہے،کیوں کہ قرآنی الفاظ ان توجیہات کی تصدیق نہیں کرتے۔ان پر تبصرہ لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔آپ کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لفظ یَعْرُجُ اِلَیْہِ کا لغوی مدلول پیش نظر رہنا چاہیے۔نیز یہ لفظ ’’الامر‘‘ قرآن کی اصطلاح میں کن کن معنوں میں مستعمل ہوتا ہے؟

کیا کائنات خود بخود چل رہی ہے؟

میرے ایک عزیز جو ایک اونچے سرکاری منصب پر فائزہیں ،کسی زمانے میں پکے دین دار اور پابند صوم وصلاۃ ہوا کرتے تھے لیکن اب کچھ کتابیں پڑھ کر لامذہب ہوگئے ہیں ۔ان کے نظریات یکسر بدل چکے ہیں ۔ ان نظریات کی تبلیغ سے بھی وہ باز نہیں آتے۔ میں ان کے مقابل میں اسلامی احکام و تعلیمات کی مدافعت کی پوری کوشش کررہا ہوں لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے ان کا مدلل جواب دینا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میری مدد فرمائیں ۔
خدا کو وہ قادر مطلق اور اس جہاں کا پیدا کرنے والا تو مانتے ہیں مگر ان کے نزدیک جہان کو خدا نے بنا کر چھوڑ دیا ہے اور اب یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے،آپ سے آپ (automatic) ہورہا ہے۔کچھ وقت نکال کر مختصر جواب دیں ۔ممنون رہوں گا۔

خالق کی پالیسی کی مصلحت

انسانی زندگی میں بہت سے واقعات وحوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب وفساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت ومصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم وخبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے،تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے، کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں ، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہن انسانی کو ان سوالات کی پیدائش کے قابل تو بنا دیا جائے،لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اَور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے۔اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذ باﷲ)

عِصمت ِانبیا؊

یہ امر مسلّم ہے کہ نبی معصوم ہوتے ہیں ،مگر آدم ؈ کے متعلق قرآن کے الفاظ صریحاً ثابت کررہے ہیں کہ آپ نے گناہ کیا اور حکم عدولی کی۔جیسے:
وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) البقرہ:۳۵ )
’’مگر اس درخت کارُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
کی آیت ظاہر کررہی ہے۔اس سلسلے میں اپنی تحقیق کے نتائج سے مستفید فرمائیں ۔

رسول کا علمِ غیب

ایک عالمِ دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالمِ غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اﷲ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے:
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (الجن ۲۶ -۲۸)
’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سواے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو،تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔‘‘
یعنی ’’وہ غیب کاعالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سواے اس رسول کے جس کو اُ س نے چن لیاہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگراں لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ رسولوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے۔‘‘
مصنف کی اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کوغیب کا صرف اتنا ہی علم دیا جاتا ہے جتنا بندوں کو پہنچانامطلوب ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ انھیں کوئی چیزنہ بتائی جاتی تھی۔کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ آیت جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے،اس معاملے میں فیصلہ کن ہے؟