اللّٰہ تعالیٰ کی صفتِ علم اور لَعَلَّ کا استعمال

آیت: وَيَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ( ابراہیم۱۴ : ۲۵)
’’ یہ مثالیں اللّٰہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں ۔‘‘
میں لفظ لَعَلَّ آیا ہے جو شک کا کلمہ ہے، حالاں کہ اللّٰہ تعالیٰ کوہر چیز کا قطعی علم ہے۔ پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟

صفاتِ الٰہی میں تناقُض ہے یا مُطابَقت

آپ نے تفہیمات حصہ اوّل کے مضمون ’’کو تاہ نظری‘‘ میں کسی مستفسر کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’اللّٰہ رحم و کرم اور رأفت و شفقت کا منبع ہونے کے باوجود چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے؟‘‘ خدائی نظام میں وقوع پذیر ہونے والے ’’شرور‘‘ کی عقلی توجیہ کے لیے مندرجہ ذیل مفروضات کا سہارا لیا ہے:
(۱) خدا کے پیش نظر پوری کائنات کا اجتماعی مفاد ہے جسے آپ خیرِ کل سے تعبیر کرتے ہیں ۔
(۲) خیرِ کل کا حصول کسی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے اور چوں کہ اللّٰہ حکیم و دانا ہے لہٰذا اس نے ضرور اس مقصد کے لیے کسی ایسے نظام ہی کو منتخب کیا ہوگا جو اپنی کارکردگی اور افادیت کے لحاظ سے سب سے زیادہ بہتر ہو۔
(۳)اگر موجودہ نظام سے زیادہ بہتر کوئی ایسا نظام ہوتا، جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہوسکتا تو یقینا اللّٰہ اس بہتر نظام کو منتخب کرتا۔
آپ نے اللّٰہ کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جب ہماری خواہشات کا علم رکھنے کے باوجود اس نے ان کو پوراکرنے سے انکار کیا تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا کرنا یقینا ناگزیر ہوگا اور اس علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا کیوں کہ وہ حکیم ہے اور حکیم کے حق میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اگر بہتر تدبیر ممکن ہو تو اسے چھوڑ کر بدتر صورت اختیار کرے گا۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کا ایک جملہ ’’علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا‘‘ نہ صرف اجتماعِ نقیضین کی ایک واضح مثال پیش کرتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفاتِ علیم و خبیر، حکمت و دانائی کا بھی قاری کے ذہن میں عجیب و غریب خاکہ مرتب کرتا ہے۔ اللّٰہ کو علیم و خبیر مان لینے کے بعد اس کے علم کو کسی خاص ’’صورت‘‘ یا ’’تدبیر‘‘ تک محدود کر دینا بجاے خود اس کے علیم و خبیر ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اللّٰہ واقعی کسی ایسے نظام کو نافذ کرنے پر قادر تھا جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیر کلی کا حصول ممکن ہوتا، تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ کم از کم حکیم و دانا نہیں ہے کیونکہ کسی ایسے نظام کے نافذ کر سکنے کے باوجود نافذ نہ کرنا آپ کے نزدیک حکمت و دانائی کے فقدان پر دلالت کرتا ہے اور اگر اللّٰہ کی حکمت و دانائی میں کسی قسم کا شک کرنا کفر قرار پائے اور یہی سمجھا جائے کہ اللّٰہ کی حکمت و دانائی ہر قسم کے شکوک سے بالاتر ہے تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالنا ہوگا کہ اللّٰہ کسی ایسے نظام (جس میں ان شرور کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہو) کو نافذ کرنے پر نہ پہلے کبھی قادر تھا، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
امید ہے کہ آپ میری اس اُلجھن کو دور فرمانے کی سعی فرمائیں گے اور کوئی ایسا تسلی بخش جواب عطا فرمائیں گے جس سے کم از کم میرے لیے یہ فیصلہ کرنا سہل ہو جائے کہ آیا اللّٰہ حکیم و دانا ہے، یا قادرِ مطلق، یا یہ کہ اللّٰہ بیک وقت حکیم و دانا بھی ہے اور قادرِ مطلق بھی۔

اللّٰہ تعالیٰ کی قُدرت صناعی (پھلوں کے ذائقے میں فرق کی وجہ)

مجھے علم نباتات میں کوئی مہارت نہیں ، تاہم تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے چند سوالات پیدا ہوئے ہیں جنھیں اطمینان حاصل کرنے کے لیے پیش کرتا ہوں :
ترجمان القرآن،جنوری، فروری ۱۹۵۱ءصفحہ۱۴۳ پر یہ حاشیہ درج ہے کہ
’’ایک ہی درخت ہے اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل،جسامت اور مزے میں مختلف ہے۔‘‘اور’’ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن کے پھل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔‘‘
’’مزے میں مختلف‘‘ ہونے کی یہ راے جو آپ نے لکھی ہے،یہ مشاہدے کی بِنا پر ہے یا کتابی علم کی بِنا پر؟اگر واقعہ یہی ہے تو بہتر تھا کہ چند ایک درختوں کی مثالیں بھی دی جاتیں ۔میرا تو خیال یہ ہے کہ ایک ہی درخت کے پھل کے مزے میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا،البتہ درخت کے جس حصے کو سورج کی روشنی وافر ملتی ہے اس حصے کے پھل پہلے پختہ ہو جاتے ہیں ۔ پھلوں کی شکلوں اور جسامت میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر مزے میں فرق ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔

اللّٰہ کے رازق ہونے کا مطلب

میں آپ سے قرآن مجید کی درجِ ذیل آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہتا ہوں :
وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا (ہود۱۱ :۶)
’’زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللّٰہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے۔‘‘
مجھے جو بات کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب رزق کا ذمہ دار اللّٰہ ہے تو بنگال کے قحط میں جو تیس ہزار آدمی۱۹۴۳ء-۱۹۴۴ء میں مر گئے تھے، ان کی موت کا کون ذمہ دار تھا؟

سجود لِغیر اﷲ

تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔شرک کے مسئلے پر ذہن اُلجھ گیا ہے۔ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں ۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خداوندتعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع وبصیر ہونا(جس کے تحت ہمار ے مروّجہ الفاظ حاضر وناظر بھی آجاتے ہیں ) بھی شامل ہیں ۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے۔ اور حقوق میں سجدہ ورکوع وغیرہ بھی ذات باری سے مختص ہیں ۔شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ خود کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدمؑ کے لیے سجدہ کا حکم دیا۔اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے اور نہ کرواتا ہے۔مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اﷲ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟

علمِ غیب

علم غیب اگر خداوند تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے تو یہ کسی بھی مخلوق میں نہ ہونی چاہیے۔لیکن قرآن وحدیث اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انبیا ورسل کو علم غیب ہوتا ہے۔ پھر کسی مخلوق میں یا کسی فرد میں اس صفت کو ہم تسلیم کریں تو مرتکب شرک کیوں ہوتے ہیں ؟ اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آں حضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کا علم دے رکھا تھا تو آخر اسے مشرک کیوں کہا جائے؟جن لوگوں کے خلاف اسی بِنا پر شرک کے ارتکاب کا فتویٰ لگایا جاتا ہے،وہ لوگ آں حضرت ﷺ کی صفت علم غیب کو ذاتی یا نفسی نہیں کہتے بلکہ خدا کی دین قرار دیتے ہیں ۔ ان کا اور دوسرے علما کا اگر اختلاف ہے تو صرف کم یا زیادہ پر ہے۔جب مسئلہ کم وبیش کا ہی ہے تو پھر فتویٰ شرک کیوں ؟

حاضر وناظرہونے کا معاملہ

حاضر وناظر کی صفت بھی خدا وند تعالیٰ سے مختص قرار دی جاتی ہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے ملک الموت کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں ، حیوانوں ، پرندوں ،چرندوں اور جنوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ حاضر وناظر ہے، اور حاضر وناظر ہونا خدا کی مخصوص صفت ہے۔یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک فرض کی انجام دہی کے لیے اپنی خاص صفت فرشتے میں ودیعت کررکھی ہے تو جو لوگ آں حضرتﷺ میں صفت حاضر وناظر کا ہونا اور خدا کی طرف سے عطا کیا جانا مانتے ہیں ، آخر انھیں مشرک کیوں کہا جاتا ہے؟

تأویل کی غلطی اور شرک میں فرق

آپ کے رسالہ’’ترجمان القرآن‘‘ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب’’ رسائل ومسائل‘‘ مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوے حق کے جذبے کے تحت سطور ذیل رقم کررہا ہوں :
کتاب وسنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عَالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ اور ’’حاضر وناظر ہونا‘‘اﷲ جل شانہ کی مختص صفات ہیں ۔بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کاوجود حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کر ے تو کتاب وسنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب وسنت کے احکام سے روگردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضاے انصاف ہے۔
آخر یہ کیا بات ہوئی کہ ان صفات کا غیر اﷲ میں تسلیم کرنا تو آپ کے نزدیک شرک ہو مگر اس شرک کا مرتکب مسلمان،اور اس پر ’’مشرک‘‘ کے لفظ کا اطلاق آپ کے نزدیک صریح تشدد! یہ تناقض کیوں ؟
آپ کسی مسلمان کو مشرک قرار اس لیے نہیں دیتے کہ اوّلاً وہ ’’تأویل کی غلطی‘‘ کا شکارہوتا ہے۔ ثانیاً وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتا۔آپ کی یہ دونوں توجیہات میرے خیال میں مبنی بر صداقت نہیں ہیں ۔

شرک اوراتّباعِ علما وصلحا

ایک عالمِ دین اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’شرک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ علما اور صلحا کو امام اور ہادی مان کر ان کے اقوال کو اﷲ کے قول کی طرح بلا سند تسلیم کیا جائے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ’’ ائمۂ سلف اور بزرگانِ دین کے علوم اور حالات سے علمی اور تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کے کسی قول کو بلا قرآنی سند کے دین ماننا شرک ہے۔‘‘ لیکن ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’کتاب اﷲ کو چھوڑ کر بزرگوں کی پیروی کرنا گمراہی ہے۔‘‘آگے چل کر پھر فرماتے ہیں کہ’’رسول اور امیر کی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت کاحکم قرآن میں نہیں ہے بلکہ ممانعت ہے۔‘‘آخر میں ایک مقام پر ان کا ارشاد ہے: ’’بلکہ عام طور پر انسانوں کی اطاعت کو قرآن خطرناک قرار دیتا ہے۔‘‘مصنف کی یہ باتیں کہاں تک درست ہیں ؟

جستجوے حق کا صحیح طریقہ

اگر ایک آدمی حق کی تلاش میں ہے اور وہ دل سے اس کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے کافی جدوجہد کے بعد بھی وہ نہیں ملتا تو کیاوہ بے چارہ حوصلہ ہار نہیں بیٹھے گا؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی انتہائی تاریکی میں اس غرض سے سفر کرتا ہے کہ کہیں روشنی کا چراغ اسے ملے۔ لیکن سفر کرتے کرتے روشنی کا نشان تک اسے نہیں ملتا۔ آخر کو بے چارا تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ روشنی سرے سے ہے ہی نہیں ، اگر کچھ ہے تو بس گھپ اندھیرا۔
مولانا محترم! آپ کہیں گے کہ میں نے یہ ایک محض فرضی مثال پیش کی ہے۔ میں انسانی زندگی میں عملی مثال پیش کرتا ہوں ۔ دو آدمی ہیں جو شعوری طور پر اور رسمی طورپر مسلمان ہیں ۔ شروع شروع میں دونوں دو حصاروں کے اندر بند ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک حصار زندگی میں مصیبتوں ، تکلیفوں اور ناکامیوں کا حصار ہے۔ ایک آدمی پہلے حصار سے باہر نکل آتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اب ایک ہی حصار اس کے لیے باقی ہے جس سے نکل کر وہ آزاد ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اورجب وہ دوسرے حصار سے بھی باہر نکل آتا ہے تو آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ تجربہ اسے مطمئن کر دیتا ہے اور وہ ایسی ذات کا قائل ہو جاتا ہے جو مصیبت زدہ کی پکار کو سنتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ مگر دوسرا شخص ایک حصار سے نکلتا ہے تو دوسرا حصار اور دوسرے سے نکلتا ہے تو تیسرا حصار اسے گھیر لیتا ہے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے پیہم حصار پر حصار اسے گھیرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ مسلسل چکر اسے قطعی مایوس کر دیتا ہے اور وہ کسی ایسی ذات سے جو مصیبت میں کام آئے مکمل طور پر نا امید ہو جاتا ہے، کیونکہ بے چارہ بار بار چلاتا ہے کہ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ اور کبھی بے چارے کو اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرہ :۲۱۴) کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ شخص اس لیے ناامید ہوگیا ہے کہ بے چارے کی بیش تر خواہشات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی اور بیس تکلیفوں میں سے ایک بھی رفع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی ایک خواہش بھی پوری ہو جاتی، یا ایک تکلیف بھی رفع ہو جاتی تو وہ اس بات سے کلی طورپر مایوس نہ ہوتا کہ اوپر کوئی بالاتر ہستی دُعائیں سننے اور حاجتیں پوری کرنے والی موجود ہے۔