رسول کی بشری کمزوریوں سے مراد

مذکورہ مقالے پر دوسرا اعتراض اس پر ہے کہ مقالہ نویس نے پیغمبرﷺ کو بشری کمزوریوں سے مبرا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں ۔ بشری کمزوریوں سے مراد بشریت کے لوازمات ہیں یا اور کچھ مراد ہے؟
جواب

اسی سلسلۂ کلام میں فوراً بعد دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ ’’رسول بشری کمزوریوں سے بالاتر نہیں ہے۔‘‘ اس میں بشری کمزوریوں سے مراد بھوک، پیاس، نیند، مرض، رنج و غم وغیرہ امور ہیں جو بشر ہی کو لاحق ہوتے ہیں اور اس مضمون میں یہ بات اس غرض کے لیے کہی گئی ہے کہ عیسائیوں نے جس ہستی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے ڈالا اس کو بھی یہ بشری کمزوریاں لاحق ہوتی تھیں ۔ مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ بشر کو خدائی میں شریک قرار دے بیٹھے۔ یہ استدلال ٹھیک ٹھیک قرآن سے ما خوذ ہے:
مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ وَاُمُّہٗ صِدِّيْقَۃٌ۝۰ۭ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ
(المائدہ: ۷۵)
’’مریم کا بیٹا مسیح ؑ رسول کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس سے پہلے بھی رسول گزر چکے تھے اور اس کی ماں راست باز تھی، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔‘‘
اس آیت میں ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے اور ماں بیٹے دونوں کے کھانا کھانے کو اس بات کی صریح دلیل ٹھیرایا گیا ہے کہ حضرت مسیح؈ بشر تھے نہ کہ فوق البشر اور الوہیت میں ان کا قطعاً کوئی حصہ نہ تھا، جیسا کہ مسیحیوں نے سمجھ رکھا ہے۔ ( ترجمان القرآن ، جون ۱۹۷۶ء)