سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟

قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورۂ توبہ کے۔ علامہ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسول اللہؐ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآن مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو۔‘‘ دراصل سورۂ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ از راہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں ، یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں ، تاکہ تشنگی دور ہوسکے۔
جواب

تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۂ توبہ کے شروع میں مولانا مودودیؒ نے جو نوٹ لکھا ہے، اس میں ’بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت تحریر فرمایا ہے:
’’اس سورہ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں ، جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒنے لکھی ہے کہ نبی ﷺ نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی، اس لیے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی ﷺ سے جوں کا توں لینے اور جیسا تھا ویسا ہی اس کے محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔‘‘
سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی؟ اس سلسلے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں ۔ لیکن ان کی حیثیت بس نکات و لطائف کی ہے۔ مثلاً علامہ قرطبیؒ نے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ اہل عرب جب کسی قوم سے کیے ہوئے اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو منسوخی کے اعلان کے لیے تیار کردہ تحریر پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے۔ سورۂ توبہ میں بھی مشرکین سے کیے گئے معاہدے کی منسوخی کا اعلان ہے، اس لیے اس کا آغاز بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں کیا گیا اور جب اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ حج کے موقعے پر ان آیات کو علی الاعلان سنادیں تو انھوں نے بھی شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔
ایک دوسرا قول انھوں نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اصلاً امان اور رحمت کا مظہر ہے، جب کہ اس سورت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا اظہار ہوتا ہے۔ (تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ء، ۸/۶۳) لیکن اس تاویل کو علامہ آلوسی نے ضعیف بتایا ہے۔ اس لیے کہ بعض دیگر سورتوں مثلاً مطففین، ہمزہ اور لہب وغیرہ کا آغاز بھی اللہ کے غضب سے ہوا ہے، مگر ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جاتی ہے۔ (روح المعانی، طبع مصر، ۱/۴۱)
اس سلسلے میں قولِ فیصل وہی ہے جسے علامہ قرطبیؒ نے امام قشیریؒ کے واسطے سے نقل کیا ہے:
الصَحِیْحُ أنَّ التَّسْمِیَۃَ لاَ تُکْتَبُ، لِأنَّ جِبْرِئِیْلَ مَا نَزَلَ بِھَا فِی ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ۔ (تفسیر قرطبی، ۸/۶۳)
’صحیح بات یہ ہے کہ یہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں لکھی جاتی، کیوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام جو قرآن لے کر نازل ہوئے تھے، اس میں یہاں وہ نہیں تھی۔‘
یہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھے جانے کی بات ہے۔ جہاں تک اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا معاملہ ہے، تو اس سلسلے میں علما فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہاں وہ لکھی ہوئی نہیں ہے، اس لیے اسے پڑھنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن بعض علماء اس کے پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس موضوع پر علامہ آلوسی نے کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے، جسے نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ امام سخاویؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں :
’مشہور ہے کہ سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے۔ عاصمؒ سے مروی ہے کہ پڑھنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لکھے نہ جانے کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس میں مشرکین مکہ سے جنگ کی بات کہی گئی ہے، یا یہ ہے کہ صحابہ قطعی طور پر طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ مستقل سورت ہے یا سورۂ انفال کا حصہ ہے۔ پہلی صورت میں اس کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگا جن کے بارے میں یہ سورت اتری تھی اور ہم تو اسے برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان آیتوں سے قرآن پڑھنے کا آغاز کیا جائے جن میں مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم ہے تو ان سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ دوسری صورت میں بھی بسم اللہ پڑھی جاسکتی ہے، جس طرح سورتوں کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ روایت میں ہے کہ مصحف ِ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے شروع میں وہ لکھی ہوئی تھی۔‘ (روح المعانی: ۱۰/۴۲)
علامہ آلوسیؒ مزید فرماتے ہیں :
’ابن منادر کی رائے ہے کہ بسم اللہ (سورۂ توبہ کے شروع میں ) پڑھنی چاہیے۔ الاقناع میں بھی اس کے جواز کی بات کہی گئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے نہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ مصحف میں وہ درج نہیں ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کو حرام قرار دینا اور نہ پڑھنے کو واجب کہنا، جیسا کہ بعض مشائخ شافعیہ کا خیال ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص درمیان ِ سورۃ سے تلاوت شروع کرے، اس کے لیے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)‘‘ (روح المعانی: ۱۰/۴۲)
اس موضوع پر مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنی تفسیر میں صحیح رہ نمائی کی ہے:
’حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص اوپر سے سورۂ انفال کی تلاو ت کرتا آیا ہو اور سورۂ توبہ شروع کر رہا ہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے، لیکن جو شخص اسی سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے، اس کو چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے۔ بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورۂ توبہ کی تلاوت میں کسی حال میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ یہ غلط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بہ جائے بسم اللہ کے، یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللّٰہ من النار پڑھتے ہیں ، جس کا کوئی ثبوت آں حضرت ﷺ اور صحابۂ کرامؓ سے نہیں ہے۔‘ (معارف القرآن، طبع دیوبند، ۴/۷۷)