چاند تارے والی چٹائیوں پر نماز

ہمارے علاقے میں اکثر مساجد میں جن چٹائیوں پر نماز ادا کی جاتی ہے ان میں چاند تارے بنے ہوتے ہیں ۔ ان پر نماز پڑھنے کی صورت میں حالت ِ سجدہ میں نماز کی پیشانی ان چاند تاروں پر پڑتی ہے۔ اس کے پیش نظر کچھ لوگ ان چٹائیوں کو الٹا کرکے چاند تاروں کو پیروں تلے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورج اور چاند کو سجدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ چٹائی الٹی کرکے اس پر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی اعتبار سے صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت فرمادیں ۔
جواب

اوپر جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
وَمِنْ ٰ ایٰـتِہِ الَّیْْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُط لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَo (حٰمٓ السجدۃ: ۳۷)
’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، بل کہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔‘‘
یہ آیت عقیدۂ شرک پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ لوگ سورج، چاند اور دیگر مظاہر کائنات کو خدائی میں شریک کرتے تھے، ان کی پرستش کرتے اور ان کے آگے سربہ سجود ہوتے تھے۔ انھیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا اور صرف اللہ سبحانہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا۔
چٹائیوں میں بنی چاند تاروں کی تصویروں پر اگر حالت ِ سجدہ میں پیشانی پڑجائے تو اس پر اس آیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ نقش کا حکم اصل کا نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی چٹائیوں کو سیدھی رکھ کر بھی ان پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جو لوگ اس کو ناپسند کرتے ہوں وہ اوپر سے رومال یا کوئی کپڑا بچھا کر نماز پڑھ لیں ۔