استعما لی زیورات پر زکوٰۃ

بعض سعودی علماء کا بیان ہے کہ جوزیورات خواتین کے استعمال میں ہوں ان پر زکوٰ ۃ نہیں ہے ۔ بعض ہندوستانی خواتین ، جو سعودی عرب میں رہتی ہیں ، یہ کہہ کر زکوٰۃ نہیں ادا کرتیں ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟
جواب

استعمالی زیورات پر زکوٰۃ کے سلسلے میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔ امام ابوحنیفہ ؒ ان پر وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں ، جب کہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس سے انکار کرتے ہیں ۔ سعودی علماء کا فتویٰ ائمہ ثلاثہ کی متابعت میں ہے ۔ یہ حضرات ان آثارِ صحابہ سے استدلال کرتے ہیں جن میں استعمالی زیورات پر عدمِ وجوب کی بات کہی گئی ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں بغیر کسی تخصیص کے ہر طرح کے زیورات پر زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علی وسلم کی خدمت میں اپنی ایک لڑکی کے ساتھ حاضر ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا :نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ کیا تمہیں اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کے بدلے جہنم کی آگ کے کنگن پہنائے ‘‘۔ یہ سن کر اس نے دونوں کنگن اتار کر آپؐ کے سامنے رکھ دیے اورکہا :’’ یہ اللہ اوراس کے رسول کے لیے ہیں ‘‘۔ (ابوداؤد۲۴۷۹:)
ایک مرتبہ آپؐ نےعورتوں کے درمیان خطبہ دیا تو فرمایا :
تَصَدَّقْنَ یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ وَلَومِنْ حُلِیّکُنَّ (بخاری۱۰۰۰:)
’’ اے عورتو! صدقہ کرو، خواہ اپنے زیورات ہی سے کرو ‘‘۔
اس مضمون کی اوربھی احادیث ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ استعمالی زیورات پر بھی زکوٰۃ اداکی جائے۔