ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کا مہر

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ’تذکار صحابیات‘ (طالب ہاشمی) میں حضرت خدیجہؓ کا مہر پانچ سو درہم درج ہے، جب کہ اسی ادارہ سے شائع شدہ کتاب ’محمد عربی ﷺ‘ میں ان کا مہر بیس اونٹ لکھا گیا ہے۔ بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں کہ دونوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟
جواب

اُم المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ کے مہر کے بارے میں سیرت کی قدیم کتابوں میں دونوں طرح کے بیانات ملتے ہیں :
بعض سیرت نگاروں نے بیس نوخیز اونٹنیاں (عشرین بکرۃ) مہر قرار دیا ہے۔ ان میں ابن ہشام، ابن کثیر، شمس الدین ذہبی، اور سہیلی رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں ۔ بعد کے بہت سے سیرت نگاروں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ جب کہ بعض دیگر سیرت نگاروں نے مہر کی مقدار ’’اثنتی عشرۃ أوقیۃ و نشا‘‘ قرار دی ہے۔ اوقیہ اور نشا سونے کے سکے ہوتے تھے اور درہم چاندی کا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا تھا اور نشا بیس درہم کے برابر۔ اس طرح مہر کی مذکور مقدار پانچ سو درہم کے برابر تھی۔ اس مہر کا تذکرہ بلاذری، دمیاطی اور محب الدین طبری وغیرہ نے کیا ہے اور بعد کے بعض سیرت نگاروں نے اس کو اختیار کیا ہے۔
بعض سیرت نگاروں نے دونوں بیانات میں جمع و تطبیق کی کوشش کی ہے۔ مثلاً محب الدین الطبری نے لکھا ہے: ’’دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کے چچا جناب ابو طالب نے آپ کی طرف سے نقد مہر ادا کیا ہو اور آپ نے اپنی طرف سے بیس اونٹنیاں مزید دی ہیں اور دونوں کا مجموعہ مہر قرار پایا ہو۔(۱) اور علی بن برہان الدین الحلبی نے اپنی کتاب ’السیرۃ الحلبیۃ‘ میں لکھا ہے: ’’ممکن ہے کہ بیس اونٹنیاں طے شدہ مہر کی مالیت کی ہوں اور آپ نے مہر کو نقد ادا کرنے کے بجائے اونٹنیوں کی شکل میں ادا کیا ہو۔‘‘ (۲)
اسی اختلاف کی بنا پر بعض جدید سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں دونوں بیانات درج کردیے ہیں ۔(۳)