انبیا وصلحاکے حدودو اختیارات

ہمارے یہاں کی جامع مسجد میں امام صاحب نماز جمعہ سے قبل بہت تفصیل سے خطبہ دیتے ہیں ، جس میں وہ دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھاتے ہیں اور قرآنی آیات اوراحادیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں ۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نفع ونقصان کےمعاملے میں اپنے رسول کوبھی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح ہدایت کا معاملہ بھی اس نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ کسی کوبھی، حتیٰ کہ کسی رسول یا کسی ولی کوبھی اس کا اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم بھی اپنے ساتھ خاص رکھا ہے ۔ کل کیا ہوگا؟ اس کی کسی انسان کو خبر نہیں ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا ہے : ’’ یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کروں گا ، مگر ان شاء اللہ کہو ‘‘۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں شرک کرنے والوں نے جن جن کومعبود بنایا ہوگا اورانہیں خدا ئی میں شریک کیا ہوگا ، روزِقیامت اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روٗبروٗ کھڑا کرے گا اور پوچھے گا کہ کیا انہوں نے اپنے پیروکاروں کواس کا حکم دیا تھا ؟ ان میں انبیاء بھی ہوں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اور صالحین بھی۔ سب برأ ت کا اظہار کریں گے۔ نماز جمعہ کے بعد بعــض لوگوں کے درمیان چے می گوئیاں ہونے لگیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں کوئی اختیار نہیں ہے ، اسی طرح ان کی غیب دانی کا انکار کرنا ان کی توہین اوران کے حق میں گستاخی ہے۔ اسی طرح انبیاء وصلحاء کوان کے پیروکاروں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے وضاحت طلب کرنا بھی ان کی توہین ہے۔ اس لیے امام صاحب کوایسی بات نہیں کرنی چاہیے اور انہوں نے جوکچھ کہا ہے اس پر معذرت طلب کرنی چاہیے۔ بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں ، کیا امام صاحب نے خطبہ میں جوباتیں کہی ہیں وہ غلط ہیں اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔
جواب

توحید اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ اس کی ضد شرک ہے ۔ عقیدۂ توحید کا خالص اور بے آ میز ہونا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو ہر گز معاف نہیں کرےگا۔ اس کے علاوہ بندہ جتنے بھی گنا ہ کرلے ، اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمی سے انہیں معاف کرسکتا ہے۔(النساء۴۸:)
عقیدۂ توحید میں یہ بات شامل ہے کہ نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار حقیقی طور پر اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ اسی طرح کسی شخص کوہدایت دینے والا صرف اللہ ہے ۔ یہ اختیارات اس نے کسی بھی انسان ، حتیٰ کہ کسی پیغمبرکوبھی نہیں دیے ہیں ۔ اسی طرح آئندہ کیا ہوگا؟ اس کا بھی قطعی علم صرف اللہ کو ہے ۔ کوئی انسان اس سے باخبر نہیں ہے ۔ اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں کثرت سے ہیں ۔(مثلاً البقرۃ: ۲۷۲، الاعراف: ۱۸۸، الکہف۲۳:۔۲۴، القصص۵۶:، لقمان۳۴:)
قرآن کریم میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ دنیا میں جولوگ شرک میں مبتلا ہیں ، انہیں اورجن ہستیوں کو انہوں نے خدائی میں شریک کررکھا ہے ، انہیں بھی اللہ تعالیٰ میدان حشر میں روبروٗ کرے گا اور ان ہستیوں سے پوچھے گا کہ کیاتم نے ان لوگوں سے شرک کرنے کوکہا تھا ؟ اس وقت وہ ہستیاں برأ ت ظاہر کریں گی ۔ ان میں انبیاء بھی ہوں گے اوراولیاء وصلحاء بھی ۔ یہ روٗبروٗ سوال وجواب محض اتمام حجت کے لیے ہوگا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کو خوب خبرہے کہ ان ہستیوں نے اپنے معتقدین کوشرک کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس میں ان انبیا ء وصلحاء کی توہین کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔
بہ حیثیت مجموعی توحید کے موضوع پر خطبۂ جمعہ میں کہی گئی مذکورہ بالاباتیں درست ہیں ۔ انبیا ء وصلحاء کے تعلق سے امت کی بڑی تعداد غلو میں مبتلا ہے ۔ وہ بسا اوقات انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر الوہیت کے مقام پر پہنچادیتے ہیں ۔ اس لیے ا ن باتوں کوغلط قرار دینے کے بجائے اس کی روشنی میں اپنے مزعومہ تصورات کی اصلاح کرنی چاہیے۔