اولاد میں جائیداد کی تقسیم

تقسیم وراثت کے سلسلے میں دو مسئلے دریافت طلب ہیں ۔ براہِ کرم ان کے سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں : ۱- میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ وہ گاؤں پررہنے والے بھائیوں کے تصرف میں ہے۔ میں روزگار کے سلسلے میں شروع سے باہر رہا ۔ والد صاحب کے انتقال کوپچیس سال گزرگئے ہیں ۔ بہ ظاہر معلو م ہوتا ہے کہ بھائی میراث تقسیم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اورمجھے بھی تقاضا کرنے میں تکلف ہورہا ہے ۔ بتائیے، میں کیا کروں ؟ ۲- میرے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔ سب شادی شدہ ہیں ، لڑکے خود کفیل ہیں ۔ میں نے حسب موقع ہر ایک کے مکان کی تعمیر کے وقت حسب گنجائش تعاون کیا ہے ۔ لڑکیوں کونقد کی شکل میں دیا ہے ۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا ہے جومیرے مرنے کے بعد بہ طور وراثت تقسیم ہو۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟
جواب

۱- کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی میراث اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہونی چاہیے ۔ البتہ کوئی صاحبِ حق اپنا حق اپنی مرضی سے چھوڑ سکتا ہے ۔ آپ کے والد صاحب کی وفات کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ وہ آپ کے بھائیوں کے تصرف میں ہے ۔ آپ ان سے اپنا حق مانگ سکتےہیں ، لیکن اگر کسی وجہ سے آپ کو اپنا حق مانگنے میں تردد ہے تو آپ اپنا حق چھوڑ سکتے ہیں ۔
۲- میراث کا مسئلہ کسی شخص کی وفات کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال اور مملوکہ چیزوں میں سے کچھ بھی جس کو چاہے ، دے سکتا ہے ۔ کسی شخص کے کئی لڑکے اورلڑکیاں ہوں اور وہ اپنی زندگی میں اپنی کل جائیدادیا اس کا کچھ حصہ ان میں تقسیم کرنا چاہے توعام حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےسب کے درمیان برابربرابر تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ یہ اخلاقی حکم ہے ۔ قانونی طورپر آدمی اپنے مال کا مالک ہے ۔ وہ حسبِ ضرورت کسی کوکم اور کسی کوزیادہ دے سکتا ہے ۔ پھر جب یہ صورتِ حال ہوکہ آپ نے مختلف اوقات میں اپنے ہر بیٹے اوربیٹی کی حسبِ توفیق مدد کی ہواور ان میں سے کسی کوکوئی اعتراض یا شکایت نہ ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔