اکتیسواں روزہ

عرب ممالک میں روزہ ہندوستان سے ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ملازمت کرنے والے ہندوستانی بسا اوقات دوران رمضان میں اپنے ملک واپس آتے ہیں ۔ یہاں کبھی انتیس (۲۹) کا چاند نہ ہونے کی وجہ سے تیسواں روزہ رکھنا پڑتا ہے، جو عرب ممالک سے آنے والوں کا اکتیسواں روزہ ہوتا ہے۔ ان کے سلسلے میں یہ سوال ہے کہ وہ اکتیسواں روزہ رکھیں یا نہ رکھیں ؟ بعض حضرات کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چوں کہ قمری مہینہ انتیس (۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے، اس لیے اکتیسواں روزہ رکھنا درست نہیں ۔ بہ راہ کرم اس معاملہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

یہ بات صحیح ہے کہ قمری مہینہ انتیس(۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ یہی بات انگلیوں پر گن کر بتائی تھی، پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر ماہ رمضان میں انتیس(۲۹) کا چاند نظر نہ آئے تو اگلے دن بھی روزہ رکھ لیا کرو۔ (بخاری:۱۹۰۹، ۱۹۱۳، مسلم: ۱۰۸، ۱۰۸۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں ماہِ رمضان کے روزے تیس دنوں سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ تیسویں دن چاہے چاند نظر آئے یا نہ آئے، اگلے دن مسلمانوں کے لیے عید منانا لازم ہے۔
لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض احادیث سے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص جس جگہ ہو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہ دینی شعائر کی انجام دہی کا پابند ہوگا۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصَّوْمُ یَوْمَ تَصُومُوْنَ وَ الفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ، وَالْأضْحٰی یَوْمَ تُضْحُوْنَ ( ترمذی: ۶۹۷)
’’روزہ اس دن ہے جب تم سب روزہ رکھو، عید الفطر اس دن ہے جب تم سب عید منا ئو اور عید الاضحی اس دن ہے جب تم سب قربانی کرو ‘‘۔
امام ترمذی ؒنے لکھا ہے: ’’اس حدیث کا مطلب بعض اہل علم نے یہ بتایا ہے کہ روزہ رمضان کا آغاز اور اختتام سب لوگ ایک ساتھ کریں گے ‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص، جس کے تیس(۳۰) روزے پورے ہو چکے ہوں ، وہ اگرکسی ایسی جگہ ہو جہاں کے مسلمان ابھی روزہ رکھ رہے ہوں (ان کے یہاں ابھی عید کا چاند دکھائی نہ دیا ہو) تو ان کی متابعت میں وہ بھی روزہ رکھے گا۔ یہی فتویٰ موجودہ دور کے تمام علماء نے دیا ہے۔ ان میں شیخ وہبہ الزہیلی (الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دار الفکر دمشق: ۱۹۸۵ ۲:؍۶۰۷) شیخ ابن باز (فتاویٰ اسلامیہ، دارالسلام ریاض: ۲؍۱۶۱، ۱۶۲) شیخ محمد صالح العثیمین (مجموع فتاویٰ الشیخ ابن عثیمین، سوال نمبر۲۵:) شیخ محمد صالح المنجد (Islam QA، سوال نمبر۴۵۵۴۵) مفتی محمد تقی عثمانی (فتاویٰ عثمانی: ۲؍ ۱۷۶) مفتی محمد شفیع، مفتی رشید احمد لدھیانوی (احسن الفتاویٰ: ۴؍ ۴۳۳) اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کتاب الفتاویٰ ، کتب خانہ نعمانیہ دیوبند: ۳؍ ۴۲۴،۴۲۵) قابل ذکر ہیں ۔
فقہ کی قدیم کتابوں میں بعض فقہاء کی یہ رائے نقل کی گئی ہے کہ ایسا شخص اکتیسواں روزہ نہیں رکھے گا، لیکن وہ خاموشی اختیار کرے گا، اپنے روزہ دار نہ ہونے کا اظہار نہیں کرے گا (انہ یفطر سِرًّا) اور اگلے دن تمام مسلمانوں کے ساتھ عید الفطر کی نماز ادا کرے گا۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل الشیخ ابن عثیمین، جلد ۱۹،ص ۴۶)
اگر کبھی اس کے بر عکس صورت حال پیش آئے، یعنی ایک شخص ہندوستان میں روزۂ رمضا ن کا آغاز کرے، پھر کسی عرب ملک میں جائے، جہاں انتیس(۲۹) کا چاند ہو جائے، اس صورت میں اس شخص کے اٹھائیس (۲۸) روزے ہی ہوں گے۔ ایسا شخص وہاں کے لوگوں کے ساتھ اگلے دن عید منائے گا اور بعد میں ایک روزہ کی قضا کرے گا۔