باپ بیٹوں کے مشترکہ کاروبارمیں وراثت کا مسئلہ

ہمارے ایک عز یز کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا ہے ۔ وہ اپنے پیچھے بیوی،دو (۲) لڑکے اور چھ (۶) لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں ۔ مرحوم کی ایک دوکان تھی ۔ انہوں نے بڑے لڑکے کواپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرلیا ۔ دونوں نے مل کر کاروبار کوخوب ترقی دی ۔ چندسال کے بعد چھوٹا لڑکا بھی اسی کاروبار میں شریک ہوگیا۔ مرحوم نے وہ دوکان ، جسے انہوں نے کرایے پر حاصل کیا تھا ، کچھ عرصے کےبعد خریدلی اور اسے دونوں بیٹوں کے نام رجسٹر ڈ کروادیا ۔ کاروبار بھی انہوں نے دونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم کردیا کہ بڑا بھائی ہول سیل سنبھالے گا اور چھوٹا بھائی ریٹیل ۔ باپ کے انتقال کے بعد جب تقسیم وراثت کا مسئلہ سامنے آیا تو بڑے بھائی نے کہا کہ والد صاحب نے دوکان ہمارے نام رجسٹرڈ کرادی تھی ، اس لیے وہ ہماری ہے ۔ باقی جائیداد میں وراثت تقسیم ہوگی ۔ چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ والد صاحب کاروبار میں آخری وقت تک ساتھ تھے، اس لیے پوری جائیداد دوکان سمیت وراثت میں تقسیم کی جائے۔ لڑکیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ والد صاحب نے کبھی ہمارے سامنے یہ ذکر نہیں کیا کہ دوکان صرف لڑکوں کی ہے، اس لیے اس میں ہمارا بھی حق بنتا ہے۔بہ راہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں ۔ دوکان میں لڑکیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ جواب: باپ کے کاروبار میں لڑکے تعاون کریں تو اس کا مالک باپ ہی رہے گا ، الّا یہ کہ باقاعدہ پارٹنر شپ کی صراحت ہوجائے ۔ لیکن جن چیزوں کی رجسٹری باپ نے اپنی زندگی میں بیٹوں کے نام کرادی ان کے مالک بیٹے تصور کیےجائیں گے ، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں وہ چیزیں بیٹوں کوہبہ کردیں اور ان کوانھیں کا مالک بنادیا۔باپ نے اپنی زندگی میں کاروبار بھی بیٹوں کے درمیان بانٹ دیا تو اس کے مالک بھی بیٹے سمجھے جائیں گے ۔ بقیہ جو چیزیں باپ کی ملکیت میں تھیں ، اس کے انتقال کےبعد وہ مستحقینِ وراثت میں تقسیم ہوں گی۔ سوال :میرے پاس ایک کرائے کی دوکان ہے ، جس کی تعمیر نو میرے بڑے بیٹے نے اپنے پیسوں سے کرائی اوردوکان میں کاروبار کے لیے جوسرمایہ لگا ہے وہ بھی میرے بڑے بیٹے کا ہے۔ دوکان پر میرا ایک چھوٹا بیٹا بھی بیٹھتا ہے ۔ شریعت کی نگا ہ میں دوکان کی ملکیت کس کی ہوگی؟ اسی طرح میر ے پاس ایک آبائی مکان ہے ، جس کی تعمیر بھی میرے بڑے بیٹے نے کرائی ہے ۔ میں اس مکان کو اپنے بڑے بیٹے کے علاوہ دوسرے وارثوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا مجھے اس کی تعمیر میں جوخرچ ہوا ہے اس کا معاوضہ بڑے بیٹے کودینا ہوگا؟براہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔
جواب

معاملات صاف ہوں تو بعد میں تنازعہ سے بچا جاسکتا ہے ۔ صورت مسئولہ سے واضح ہے کہ باپ بیٹوں کے درمیان کاروبار اوررہائش کے معاملات صاف نہیں ہیں ۔
کرایے کی دوکان باپ کی ہو، جس کی تعمیر نو بیٹے نے کی ہو تو اس کی ملکیت (کرایہ داری) باپ کی ہی سمجھی جائے گی۔ اس میں اگر کل سرمایہ بڑے بیٹے کا ہے تو کاروبار اسی کا سمجھا جائے گا۔ چھوٹے بیٹے کی حیثیت اجیر (ملازم) کی ہوگی، جس کے معاوضہ کا وہ مستحق ہوگا۔ لیکن اگر بڑے بیٹے کا سرمایہ جزوی ہے تووہ اور اس کا باپ اور چھوٹا بھائی تجارت میں شریک سمجھے جائیں گے۔ بڑے بیٹے نے دوکان کی تعمیر نو میں جوپیسہ لگایا ہے اسے وہ لینے کا مستحق ہے ۔
رہائشی مکان کی ملکیت بھی باپ کی سمجھی جائےگی۔ بیٹے نے اس کی تعمیر میں جورقم خرچ کی ہے اس کا معاوضہ لینے کا و ہ مستحق ہے ۔
بیٹے اپنی کمائی میں کچھ رقم باپ کودیتے رہیں تو اسے با پ کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔
اس موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا )کے سیمینار منعقدہ ۲۰۱۰ء گجرات میں غور ہوا تھا اوردرج ذیل تجاویز منظور کی گئی تھیں :
۱- شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کومعاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے، اس لیے مسلمان اپنی معاشرت میں معاملات کی صفائی کا خاص اہتمام کریں ، خصوصاً تجارت اور کاروبار میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے ۔ ایک شخص تجارت کررہا ہے اور اس کی اولاد بھی اس کاروبار میں شریک ہے تو جوبیٹے باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہے ہیں ،ان کی حیثیت (شریک، اجیر یا معاون کے طور پر ) شروع سے متعین ہوجائے تو خاندانوں میں ملکیت کے اعتبار سے جونزاعات ہوتے ہیں ان کا بڑی حدتک سدّ باب ہوجائے گا، اس لیے اس طرح کے معاملات میں پہلے سے شرکا کی حیثیت متعین کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
۲- اگر والد نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا ، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہوگئے ، مگر الگ سے انہوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اوروالد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی تو اگروہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تواس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے اوراگر باپ کی زیر کفالت نہیں ہیں تو عرفاً جواجرتِ عمل ہوسکتی ہے وہ ان کو دی جائے۔
۳- اگروالد کے ساتھ بیٹوں نے بھی کاروبار میں سرمایہ لگایا ہوا ور سب کا سرمایہ معلوم ہوکہ کس نے کتنا لگایا ہے تو ایسے بیٹوں کی حیثیت با پ کے شریک کی ہوگی اورسرمایے کی مقدار کے تناسب سے شرکت مانی جائے گی، اِلّا یہ کہ سرمایہ لگانے والے بیٹے کی (اعلان کردہ) نیت والد کے یا مشترکہ کاوبار کے تعاون کی ہو، شرکت کی نہیں ۔
۴- اگر کاروبا ر کسی لڑکے نے اپنے ہی سرمایے سے شروع کیا ہو،لیکن بہ طور احترام دوکان پر والد کو بٹھایا ہو،یا اپنے والد کے نام پر دوکان کا نام رکھا ہوتو اس صورت میں کاروبار کا مالک لڑکا ہوگا ، والد کودوکان پر بٹھانے یا ان کے نام پر دوکان کانام رکھنے سے کاروبار میں والد کی ملکیت و شرکت ثابت نہ ہوگی۔
۵- باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کوادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔
۶- اگر کسی وجہ سے والد کا کاوربار ختم ہوگیا، لیکن کاروبار کی جگہ باقی ہو، خواہ وہ جگہ مملوکہ ہویا کرائے پرحاصل کی گئی ہو اوراولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگاکر اسی جگہ اور اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا تو اس صورت میں جس نے سرمایہ لگا کر کاروبار شروع کیا ، کاروبار اس کی ملکیت ہوگا، والد کی ملکیت نہیں ہوگا، لیکن وہ جگہ (خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر لی گئی ہو) دوبارہ کاروبار شروع کرنے والے کی نہیں ، بلکہ اس کے والد کی ہوگی اوروالد کی وفات کی صورت میں اس میں تمام ورثہ کا حق ہوگا۔ اسی طرح کاروبار کا گُڈوِل (معنوی قیمت) بھی باپ کا حق ہے اوراس کی وفات کے بعد تمام ورثہ کا حق ہوگا۔‘‘
(نئے مسائل اورفقہ اکیڈمی کے فیصلے،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نئی دہلی ،۲۰۱۶ء ص۲۱۷۔۲۱۸)