بعض احادیث پر اشکالات

دو احادیث پر کچھ اشکالات پیدا ہورہے ہیں ، بہ راہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں : (۱) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد) اس حدیث پر درج ذیل اشکالات پیدا ہو رہے ہیں : الف: یہ حدیث اسلام کے تصور ِ توحید کے منافی ہے۔ ب: ہندوؤں کے یہاں عورت کے بارے میں تصور ہے کہ وہ شوہر کی داسی ہے ۔ پتی ورتا ہونا اس کا دھرم ہے اور پتی ورتا کے معنیٰ یہ ہیں کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔ اس حدیث سے بھی یہی تصور ابھرتا ہے۔ ج: یہ حدیث قرآن کی اس تعلیم کے خلاف ہے: ’’اللہ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔‘‘ (النساء: ۱) د: اس حدیث سے عورت کی تذلیل و توہین معلوم ہوتی ہے۔ (۲) ایک حدیث ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں : ’’میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔‘ آپؐ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ اس سے میرا نکاح کرادیجیے۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے؟ (یعنی اسے مہر میں کیا دوگے؟)‘ اس نے کہا: ’کچھ بھی نہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاکر تلاش کرو، کچھ نہیں تو لوہے کی انگوٹھی سہی۔‘ اس نے جاکر ڈھونڈا اور کچھ دیر کے بعد واپس آکر کہا۔ ’حضوؐر! مجھے کوئی چیز نہیں ملی، یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی مہیا نہیں کرسکا ہوں ، البتہ میرا یہ تہبند حاضر ہے۔ اس عورت کو میں آدھا تہبند دے دوں گا۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’تیرا یہ تہبند کس کام کا؟، اگر اسے تو پہنے گا تو تیری بیوی برہنہ ہوجائے گی اور اگر اسے اس نے پہنا تو پھر تم کیا پہنوگے؟‘‘ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا: ’تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟‘ وہ بولا: ’ہاں ! فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاؤ، میں نے قرآن کی ان سورتوں کے بدلے اس عورت سے تمھارا نکاح کردیا۔‘ (بخاری و مسلم) اس حدیث پر کئی اشکالات وارد ہوتے ہیں : ۱- عورت نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کیا تھا۔ آپؐ کی خاموشی کے بعد حاضرین میں سے کسی شخص کا خواہش نکاح ناقابل فہم ہے۔ ۲- عورت کی رائے معلوم کیے بغیر رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے کو آگے بڑھانا کیسے ممکن ہے؟ ۳- مہر جو مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے، اس کو لوہے کی انگوٹھی جیسی حقیر چیز پر محمول کرنے کی کیا شریعت اجازت دیتی ہے؟ ۴- اس شخص کا مہر میں تہبند پیش کرنا، اس سے زیادہ بیہودہ مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟ ۵- اگر موصوف اس قدر مفلس تھے تو وہ اپنی بیوی کا نفقہ کس طرح ادا کرسکتے تھے؟ ایسے شخص کے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ: ’’جو شخص نکاح کی ذمے داریاں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیوں کہ یہ اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم) ۶- کیا ان حالات میں مہر مؤجّل پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا؟
جواب

احادیث کا مطالعہ کرتے وقت درج ذیل باتوں کو ضرور اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے:
۱- کوئی حدیث اگر متعدد کتب ِ حدیث میں مروی ہو اور صحیح سندوں سے ثابت ہو تو اس کے بارے میں توجیہ و تاویل کا ذہن بنانا چاہیے، نہ کہ اس پر اشکالات وارد کرنے کا۔ محدثین نے احادیث کی چھان پھٹک میں غیر معمولی محنت کی ہے۔ انھوں نے روایت اور درایت دونوں پہلوؤں سے احادیث کو پرکھا ہے اور متعین اصول و ضوابط کی روشنی میں صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کو الگ الگ کردیا ہے۔
۲- دین کی کسی تعلیم کے فہم کے لیے محض ایک حدیث پر انحصار کافی نہیں ہے۔ بل کہ اس موضوع کی دوسری احادیث کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ سب کو سامنے رکھ کر ہی صحیح نتیجہ مستنبط کیا جاسکتا ہے۔
۳- کسی حدیث میں کوئی واقعہ مذکور ہو تو اس میں واقعے کی تمام جزئیات کی صراحت نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں بین السطور، سیاق اور حالات سے مستنبط کرنی ہوتی ہیں ۔ محدثین بھی بسا اوقات ایک حدیث کا صرف متعلقہ حصہ ایک جگہ روایت کرتے ہیں ، اس کے دوسرے حصے دوسرے مقامات پر نقل کرتے ہیں ۔ اس لیے اگر کسی حدیث میں واقعے کا کوئی جزئیہ مذکور نہ ہو تو اس کا بالکلیہ انکار صحیح نہ ہوگا، جب تک کہ اس حدیث کے تمام اجزاء اکٹھا کرکے بالاستیعاب ان کا مطالعہ نہ کرلیا جائے۔
درج بالا سوال کی پہلی حدیث متعدد صحابۂ کرام سے حدیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہے۔ مثلاً حضرت ابوہریرہؓ (ترمذی)، حضرت قیس بن سعدؓ (ابو داؤد)، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰؓ (ابن ماجہ)، حضرت طلق بن علیؓ (ترمذی و نسائی)، حضرت ام سلمہؓ (ترمذی و ابن ماجہ)، حضرت عائشہؓ (ابن ماجہ و احمد)، حضرت معاذ بن جبلؓ (احمد و بزار)، حضرت سراقہ بن مالکؓ (طبرانی)، حضرت بریدہؓ (حاکم) اور حضرت ابن عباسؓ (بزار) وغیرہ۔ ان میں سے کچھ صحیح سندوں سے مروی ہیں ، کچھ حسن اور کچھ ضعیف ہیں ۔ لیکن ان کے بارے میں علامہ شوکانی نے لکھا ہے: ھٰذِہٖ أحَادِیْثُ یَشْھَدُ بَعْضُھَا لِبَعْضٍ وَّ یُقَوِّی بَعْضُھَا بَعْضًا۔ نیل الاوطار، طبع مصر، ۶/۳۶۱- ۳۶۲) (شواہد کی بنا پر یہ احادیث قوی ہوجاتی ہیں )
یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ حدیث اسلام کے تصور توحید کے منافی ہے۔ یہ اسلام کے تصو ّر توحید کے منافی اس وقت ہوتی، جب عورت کو حکم دیا جاتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ علامہ مناویؒ لکھتے ہیں : فِیْہِ تَعْلِیْقُ الشَّرْطِ بِالْمُحَالِ وَ أَخْبَرَ المُصْطَفٰی ﷺ اَنَّ ذٰلِکَ لاَیَکُوْنُ۔ فیض القدیر، ۵/۳۲۹ (اس میں شرط کو محال پر معلق کیا گیا ہے اور آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے) احادیث میں یہ اسلوب عام ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کے مناقب میں ایک حدیث مروی ہے: لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ۔ ترمذی: ۳۶۸۶ (اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضوؐر نے حضرت عمرؓ کی نبوت کی پیشین گوئی کی تھی۔ مسیلمہ کذاب کے نمائندوں سے آپؐ نے فرمایا: لَوْلاَ اَنَّ الرُّسُلَ لاَ تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ اَعْنَاقَکُمَا۔ ابو داؤد: ۲۷۶۱ (اگر سفیروں کو قتل نہ کیے جانے کا ضابطہ نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑادیتا) اس کا مطلب یہ نہیں کہ سفیروں کو قتل کرنا جائز ہے۔ ایک مشکوک کردار والی عورت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: لَوْ رَجَمْتُ اَحَدًا بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ لَرَجَمْتُ ھٰذِہٖ۔ بخاری: ۵۳۱۶ (اگر بغیر کسی ثبوت کے میں کسی کو سنگسار کرتا تو اسے کردیتا) اس کا مطلب یہ نہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے حد جاری کردینا جائز ہے۔ اسی طرح زیر بحث حدیث کا بھی مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔
یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ اس حدیث سے ہندوؤں کے عقیدے کی طرح شوہر کو دیوتا اور بھگوان سمجھنے کا تصور ابھرتا ہے۔ اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے بعض ان روایتوں کو نظر میں رکھنا ضروری ہے، جن میں حدیث کا پس منظر بھی مذکور ہے۔ ابو داؤد (۲۱۴۰)کی روایت میں حضرت قیس بن سعدؓ فرماتے ہیں : میں حیرہ گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے مذہبی پیشوا کو سجدے کرتے ہیں ۔ میرے جی میں آیا کہ اس سجدۂ تعظیمی کے تو رسول اللہ ﷺ زیادہ مستحق ہیں ۔ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ اور اپنے خیال کا اظہار کیا۔ تب آپؐ نے یہ بات فرمائی۔ ابن ماجہ (۱۸۵۳) میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنے سفر ِ شام میں عیسائیوں کو اپنے پادریوں کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ واپس آکر انھوں نے بھی حضرت قیسؓ کی طرح اپنی خواہش کا اظہار کیا تب آپؐ نے یہ بات فرمائی۔ حدیث سے کیا مستنبط ہوتا ہے؟ علامہ مناویؒ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں : مَقْصُوْدُ الْحَدِیْثِ الْحَثُّ عَلٰی عَدْمِ عِصْیَانِ الْعَشِیْرِ وَالتَّحْذِیْرُ مِنْ مُخَالَفَتِہ وَ وُجُوْبُ شُکْرِ نِعْمَتِہٖ فیض القدیر۔ ۵/۳۲۹ (حدیث میں اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ شوہر کی نافرمانی نہ کی جائے، اس کی مخالفت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی طرف سے حاصل سہولتوں پر شکر ادا کرنے کو لازم کیا گیا ہے)۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں : فِیْہِ تَاْکِیْدُ حَقِّ الزَّوْجِ وَ حَثٌّ عَلٰی مَا یَجِبُ مِنْ بِرِّہٖ وَ وَفَائِ عَھْدِہٖ وَالْقِیَامِ بِحَقِّہٖ، وَ لَھُنَّ عَلَی الْأَزْوَاجِ مَا لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ (حوالہ سابق) (اس حدیث میں شوہر کے حق پر زور دیا گیا ہے اور اس پر ابھارا گیا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اس کے عہد کو پورا کیا جائے اور اس کے حقوق ادا کیے جائیں ۔ البتہ عورتوں کے بھی شوہروں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے شوہروں کے ان پر ہیں )۔ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے لکھا ہے: فِیْ ھٰذَا الْمُبَالَغَۃُ لِوُجُوْبِ اِطَاعَۃِ الْمَرْأۃِ فِیْ حَقِّ زَوْجِھَا۔ تحفۃ الأحوذی شرح ترمذی، مکتبہ اشرفیہ دیوبند، ۴/۲۷۲ (اس میں بڑے مبالغہ سے یہ بات کہی گئی ہے کہ شوہر کے حق میں عورت کی اطاعت واجب ہے)۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کامل مساوات رکھی گئی ہے۔ ان کے انسانی حقوق برابر ہیں ۔ ان کے سماجی حقوق میں بھی کوئی امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں اعمال کی جزا کے معاملے میں بھی کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نظامِ خاندان میں شوہر کو بیوی پر یک گونہ برتری دی گئی ہے، اسے گھر کا سربراہ بنایا گیا ہے اور بیوی کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِص وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌط (البقرۃ: ۳۲۸)
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ، البتہ مردوں کو ان پر ایک (برتر) درجہ حاصل ہے۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مفسرین نے صراحت کی ہے کہ اطاعت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی شامل ہے۔ (تفسیر طبری، ۸/۲۹۴، البحر المحیط الابی حیان، ۳/۳۳۷)
یہ تصور کہ مرد اور عورت کے درمیان ہر معاملے میں مساوات اور یکسانی ہے، حتیٰ کہ نظامِ خاندان میں بھی شوہر کو بیوی پر کوئی برتری نہیں اور بیوی سے شوہر کی اطاعت کا مطالبہ کرنا اس کی توہین و تذلیل ہے، یہ اصلاً مغربی تصور ہے، جو اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتا۔
رہی دوسری حدیث تو اس پر بھی غور و خوض صحیح تناظر میں نہیں کیا گیا ہے۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے نکاح کو مشروع کیا گیا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ آسان بنایا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح میں عورت کی مرضی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسے اختیار ہے کہ جس شخص کی چاہے نکاح کی پیش کش قبول کرلے، خواہ اس کی جو بھی سماجی حیثیت ہو اور اس کی معاشی تگ و دو کا جو بھی حال ہو۔ لیکن اگر عورت تیار نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ان بنیادی نکتوں کی طرف تو سائل کی توجہ مبذول نہ ہوسکی، دوسرے اشکالات ذہن میں ابھر آئے۔
یہ حدیث بخاری (۵۱۲۱)، مسلم (۱۴۲۵)، ابو داؤد (۲۱۱۱)، ترمذی (۱۱۱۴)، نسائی (۳۳۳۹) اور موطا امام مالک (۲۲۶۷) میں مروی ہے۔ امام بخاریؒ نے اس کے اجزاء چودہ مقامات پر روایت کیے ہیں اور اس سے مختلف استنباطات کیے ہیں ۔ چند استنباطات ملاحظہ ہوں :
- ۲۳۱۰، کتاب الوکالۃ، باب وکالۃ المرأۃ الامام فی النکاح یعنی سربراہِ حکومت نکاح میں عورت کا وکیل بن سکتا ہے۔
- ۵۰۷۱، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر الذی معہ القرآن والاسلام یعنی اس غریب شخص کا نکاح کرا دینا چاہیے جسے قرآن کی سورتیں یاد ہوں اور وہ مسلمان ہو۔
- ۵۰۸۷، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر لقولہ تعالٰی اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاء یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ یعنی غریب شخص کا نکاح کرا دینا چاہیے، اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے اگر وہ غریب ہیں تو بعید نہیں کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے مال دار کردے۔
- ۵۱۲۱، کتاب النکاح، باب عرض المرأۃ نفسہا علی الرجل الصالح، یعنی عورت نیک مرد سے نکاح کی پیش کش کرسکتی ہے۔
- ۵۱۲۶، کتاب النکاح، باب النظر الی المرأۃ قبل التزویج، یعنی نکاح سے قبل عورت کو دیکھا جاسکتا ہے۔
- ۵۱۴۹، کتاب النکاح، باب التزویج علی القرآن و بغیر صداق یعنی مرد کو قرآن یاد ہونے پر، بغیر مہر کے عورت کا نکاح اس سے کیا جاسکتا ہے۔
- ۵۱۵۰، کتاب النکاح، باب المھر بالعروض و خاتم من حدید، یعنی مہر کوئی سامان بھی ہوسکتا ہے، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہو۔
اب ایک نظر اشکالات پر ڈال لینا مناسب ہے۔
یہ اشکال بے معنیٰ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اس عورت سے نکاح کرنا نہیں چاہتے تھے تو اس کی مرضی معلوم کیے بغیر دوسرے شخص سے اس کا نکاح کیوں کرادیا؟ ایک روایت میں تفصیل ہے کہ آں حضرت ﷺ اس عورت کی پیش کش پر خاموش رہے تو وہ مجلس میں رکی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر اپنی بات دہرائی، آپؐ نے اس بار بھی کچھ نہیں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے صراحت سے معذرت کردی تھی (مَالِی فِی النِّسَائِ مِنْ حَاجَۃٍ۔ بخاری: ۵۰۲۹، مجھے اس وقت نکاح کی ضرورت نہیں ) اس کے باوجود عورت وہاں سے نہیں گئی تھی۔ (بخاری: ۵۱۴۹) اس لیے ایک صحابی نے اس سے نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ اس پر وہ عورت خاموش رہی۔ آپؐ نے اس آدمی سے دریافت کیا: مہر میں کیا دوگے؟ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپؐ نے اسے بھیجا کہ وہ کچھ لے کر آئے۔ وہ کچھ دیر کے بعد خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔ اس عرصے میں وہ عورت وہیں بیٹھی رہی اور یہ واضح ہوجانے کے باوجود کہ یہ صاحب بالکل مفلس ہیں ، اس سے نکاح پر اپنی عدم رضا کا اظہار نہیں کیا۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کسی مرحلے پر عورت کی رائے معلوم کی ہو، لیکن قرینہ واضح دلیل ہے کہ ہر مرحلے پر عورت کی خاموشی اس کی رضا کی دلیل تھی۔ جو عورت بھری مجلس میں اپنے نکاح کی خواہش کا اظہار کرسکتی تھی وہ رشتہ پسند نہ آنے کی صورت میں صراحت سے انکار کرنے پر بھی قادر تھی۔ اس کا خاموشی سے بیٹھے رہنا، سلسلے کو آگے بڑھتے دیکھتے رہنا اور رسول اللہ ﷺ کے نکاح کرادینے کے بعد خاموشی سے اس آدمی کے ساتھ چلے جانا، اس کی رضا کی دلیل اور آں حضرت ﷺ پر بھر پور اعتماد کا مظہر تھا۔
شریعت میں مہر کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی مشروعیت کی کیا حکمت ہے؟ اور اس کی کم از کم مقدار کیا ہوسکتی ہے؟ علماء نے اس پر طویل اور دقیق بحثیں کی ہیں ۔ انھوں نے قرآن کے بیانات اور اس موضوع پر مختلف احادیث کو سامنے رکھ کر استنباطات کیے ہیں ۔ ان کے نتائج فکر میں اختلاف ہوا ہے۔ فقہائے اربعہ میں امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک کم سے کم مالیت کی کوئی بھی چیز مہر بن سکتی ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک اس کی مالیت کم سے کم تین درہم اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک دس درہم ہونی چاہیے۔ اس موضوع پر تفصیل کے لیے کتب فقہ سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن احادیث سے بہ ہر حال یہ ثابت ہے کہ عہد نبوی میں نہ صرف یہ کہ کم سے کم مالیت کی اور حقیر سے حقیر چیز کو بھی مہر سمجھ لیا گیا۔ زیر بحث واقعہ کے علاوہ حضرت ام سلیمؓ کا واقعہ مشہور ہے۔ انھیں ابو طلحہؓ نے نکاح کا پیغام دیا۔ اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ حضرت ام سلیم نے جواب دیا: اے ابو طلحہؓ! آپ جیسوں کی پیش کش رد نہیں کی جاتی، لیکن آپ کافر ہیں اور میں مسلمان، اس لیے ہمارے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ اسلام لے آئیں تو یہی میرا مہر ہوگا، میں آپ سے اور کچھ نہ مانگوں گی۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ ابو طلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ دونوں کے درمیان نکاح ہوگیا۔ اور ابو طلحہؓ کا قبول اسلام ہی ام سلیمؓ کا مہر قرار پایا۔ (نسائی: ۳۳۴۰)
زیر بحث حدیث میں یہ بھی ہے کہ ’’جب آں حضرت ﷺ نے آدمی سے کہا کہ مہر کے نام پر کچھ بھی لے آؤ تو اس نے کہا: ’’میرے پاس بس یہ تہبند ہے، اس کا نصف میں دے سکتا ہوں ۔‘‘ اسے بیہودہ مذاق وہی لوگ قرار دے سکتے ہیں جو کوٹھیوں میں رہتے ہوں ، بینک بیلنس کے مالک ہوں اور جنھیں اپنے سوٹوں کی گنتی بھی یاد نہ رہتی ہو۔ لیکن جن لوگوں کی نظر صحابۂ کرام کی معاشرتی و معاشی زندگی پر ہو وہ اسے حقیقت پر محمول کریں گے۔ صحابۂ کرام کی بڑی تعداد ایسی تھی، جو انتہائی غربت کی حالت میں زندگی گزارتی تھی۔ بسا اوقات فاقوں کی نوبت آجاتی تھی۔ ان کے جسموں پر پورے کپڑے نہ ہوتے تھے۔ اسی بنا پر مجلسوں میں شرم کے مارے وہ دوسروں کی اوٹ لینے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں : جَلَسْتُ فِیْ عصابۃٍ مِّنْ ضُعَفَائِ الْمُھَاجِرِیْنَ وَ اِنَّ بَعْضَھُمْ یَسْتَتِرُ بِبَعْضٍ مِنَ الْعُرَیٰ۔ ابو داؤد: ۳۶۶۶ (میں ایسے غریب مہاجرین کی جماعتوں کے ساتھ بیٹھا ہوں جو برہنگی کے سبب ایک دوسرے کی اوٹ لیتے تھے) زیر بحث حدیث کے راوی حضرت سہلؓ جب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس شخص نے اپنا تہبند دے دینے کی پیش کش کی تو ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اس کے پاس چادر نہیں تھی۔ (بخاری: ۵۱۲۱) گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس چادر ہوتی تو وہ تہبند کے بہ جائے چادر دینے کی بات کہتا۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود اس سے کہا تھا: اَعْطِھَا ثَوْبًا۔ بخاری: ۵۰۲۹ (اسے مہر میں کوئی کپڑا دے دو) تب اس نے تہبند دینے کی بات کہی تھی۔
نفقہ کو مہر پر قیاس کرنا صحیح نہیں ۔ کوئی شخص کھانے پینے سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اور جب وہ اپنا انتظام کرسکتا ہے تو اپنی بیوی کا بھی کرسکتا ہے۔ نکاح کی ذمّے داری ادا نہ کرسکنے کی صورت میں روزہ واجب نہیں ، محض ایک تدبیر ہے اور روزہ چوبیس گھنٹے کا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں بھی کھانے پینے کا انتظام تو کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن اس واقعے میں قابل ِ غور یہ بنیادی نکتہ ہے کہ اگر کوئی عورت اس قدر مفلس شخص کے ساتھ نکاح کرنے اور اس کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے پر رضا مند ہے تو دوسرے کسی شخص کو اس کے ساتھ ہم دردی جتانے اور اس مفلس شخص کو اس سے نکاح کرنے سے روکنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟!!
شریعت میں مہر معجل (فوری طور پرقابل ِ ادا مہر) اور مہر مؤجّل (بعد میں قابل ِ ادا مہر) دونوں صورتیں بتائی گئی ہے۔ لیکن ہندستانی مسلم معاشرے میں عموماً مہر مؤجل کی جو صورت اختیار کرلی گئی ہے وہ شریعت کا مذاق ہے۔ اس کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اسے کبھی نہیں ادا کرنا ہے۔ اگر سمجھا نہیں گیا ہے تو عمل بہ ہر حال اسی پر ہے۔ شریعت میں مہر معجل کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ صحابۂ کرام کا اسی پر عمل تھا۔ ان کے نزدیک اس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص نکاح کرلے اور ادائی مہر کو آیندہ کے لیے ٹال دے۔