بوڑھوں کے لیے رفاہی اداروں کا قیام

آج کل بوڑھوں کے لیے ’اولڈ ایج ہومس‘ کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ تقریباً تمام بڑے شہروں میں یہ ادارے قائم ہیں ۔ عموماً انھیں چلانے والے غیر مسلم ہیں ۔ کیا شرعی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے ایسے ہومس قائم کرناجائز ہے؟ بہ راہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل اظہار ِ خیال فرمائیں ۔
جواب

موجودہ زمانے میں اولڈ ایج ہومس (Old Age Homes) سماج کی ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر ابھرے ہیں ۔ مادیت کی دوڑ میں لوگ اس قدر مصروف ہیں کہ انھیں اپنے بزرگوں ، رشتہ داروں اور متعلقین سے بات تک کرنے کی فرصت نہیں ہے۔ بوڑھے ماں باپ کو ایک بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس صورت ِ حال میں تنہائی، متعلقین کی لاپروائی اور دیگر اسباب کی بنا پر بوڑھے ان ’ہومس‘ کی شکل میں اپنے لیے گوشۂ عافیت تلاش کرلیتے ہیں ۔ بعض شقی القلب اولادیں بھی اپنے عیش و آرام کو خلل سے بچانے کے لیے انھیں وہاں داخل کردیتی ہیں ۔ ان مراکز میں بوڑھوں کی نگہ داشت، طبی جانچ، ٹیلی فون اور دیگر سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں اور بالکل گھر جیسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، جہاں بوڑھے اپنوں سے جدائی کا غم دور کرسکیں ۔ ان میں سے بعض سرکاری امداد یا غیر سرکاری تنظیموں کے مالی تعاون سے رضا کارانہ طور پر چلتے ہیں اور بعض اپنی خدمات کی فیس وصول کرتے ہیں جس کی ادائی یہ بوڑھے خود یا ان کی اولادیں کرتی ہیں ۔
’اولڈ ایج ہومس‘ مغرب کی مادہ پرستانہ اور خود غرضی پر مبنی تہذیب کی پیداوار ہیں ۔ ایسے ہومس مغربی ممالک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ادھر کچھ عرصے سے ان کا چلن بڑھا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵ء تک ملک میں ایک ہزار سے زیادہ اولڈیج ہومس قائم ہوچکے تھے۔
’اولڈ ایج ہومس‘ کا تصور اسلامی تہذیب و ثقافت سے میل نہیں کھاتا، اس لیے مسلم تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کا چلن نہیں ہوا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنے، ان کی خبر گیری کرنے، انھیں خوش رکھنے اور آرام پہنچانے اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کی ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۸، لقمان: ۱۴، الاحقاف: ۱۵) بندوں کے حقوق میں خاص کر والدین کے حقوق کی ادائی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کا تذکرہ اللہ کے حق سے متصل کیا گیا ہے۔ جہاں انسانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اس کے معاً بعد یہ حکم دیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کریں (البقرۃ: ۸۳، النساء: ۳۶، الانعام: ۱۵۲) سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ اور خاص طور پر بڑھاپے میں ان کے ساتھ حسن ِ معاملہ کی تاکید بہت مؤثر اور دل کش انداز میں کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلّاَ تَعْبُدُوْآ اِلّآَ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاoط
(بنی اسرائیل: ۲۳-۲۴)
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو۔ نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بل کہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘
احادیث میں بھی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنے اور ان کا سہارا بننے کی تاکید کی گئی ہے اور ایسا کرنے والے کو جنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رَغِمَ اَنْفُہٗ، رَغِمَ اَنْفُہٗ، رَغِمَ اَنْفُہٗ۔ قِیْلَ مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَنْ اَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، حدیث: ۲۵۵۱)
’’اس شخص کی ناک غبار آلود ہوئی، اس شخص کی ناک غبار آلود ہوئی، اس شخص کی ناک غبار آلود ہوئی، (یعنی وہ ناکام و نامراد ہوا) صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ، کس شخص کی؟ فرمایا: جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر بھی جنت میں داخل نہ ہوسکا۔‘‘
یہی حدیث جامع ترمذی میں جن الفاظ میں مروی ہے وہ زیادہ صریح ہیں :
رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ اَدْرَکَ عِنْدَہٗ اَبَوَاہُ (اَوْ اَحَدُھُمَا) الْکِبَرَ فَلَمْ یُدْخِلاَہُ الْجَنَّۃَ۔ (جامع ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث: ۳۵۴۵)
’’اس شخص کی ناک غبار آلود ہوئی جس کے پاس رہتے ہوئے اس کے ماں باپ میں سے دونوں یا کوئی ایک بوڑھے ہوئے، پھر بھی ان کے ذریعے وہ جنت میں داخل نہ ہوسکا۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:
’’میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت و جہاد کے لیے بیعت کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کے ذریعے میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کا خواہاں ہوں ۔‘‘
آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تمھارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ہاں ، دونوں زندہ ہیں ۔‘‘
آپؐنے پھر دریافت فرمایا: ’’کیا تم واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب چاہتے ہو؟‘‘
اس شخص نے جواب دیا: ’’ہاں ۔‘‘
تب آپؐ نے فرمایا: ’’پھر اپنے والدین کے پاس جاؤ اور ان کے ساتھ رہ کر حسن سلوک کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، حدیث: ۲۵۴۹)
اس حدیث سے واضح ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر قرار دیا ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ عام حالات میں فرض کفایہ ہے، جب کہ والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک فرض عین ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کا تقاضا ہے کہ والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اولڈ ایج ہومس کے حوالے نہ کردیا جائے، بل کہ انھیں اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کی پوری طرح خبر گیری کی جائے، ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کی جائیں ، ان کی دل جوئی کی جائے۔ بڑھاپے کے چڑ چڑے پن کی وجہ سے اگر وہ کبھی سخت سست کہیں تو اس کا برا نہ مانا جائے۔ انھیں جھڑکا جائے نہ اف کہا جائے، بل کہ نرمی اور محبت سے پیش آیا جائے۔ مسلم معاشرہ عموماً ان تعلیمات پر عمل پیرا رہا ہے، اس لیے یہاں کبھی اولڈ ایج ہومس قائم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اولڈ ایج ہومس کا قیام شرعی اعتبار سے ناجائز ہے۔ بسا اوقات ایسے حالات ہوسکتے ہیں کہ کوئی مرد یا عورت بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے اور وہ لاولد ہو، یا اس کی اولاد ہو مگر اس سے بے پروا ہو، یا کسی اور سبب سے وہ بے سہارا ہو اور کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا نہ ہو۔ ایسے لاچار و مجبور اور بے سہارا مردوں ، عورتوں کے لیے رفاہی ادارے قائم کرنا کار ِ ثواب ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
خَیْرُ النَّاسِ اَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ۔ (عبدا لرؤف مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ۳/۴۸۱)
’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس سے دوسرے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے۔‘‘