تبلیغ ِ دین کے کام میں زکوٰۃ کا استعمال

برادران ِوطن میں دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ایک موبائل وین کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعہ دینی کتابیں شہر کے مختلف علاقوں میں پہنچائی جائیں گی، دینی کتابیں اور فولڈر مفت تقسیم کیے جائیں گے اور کچھ کتابیں برائے نام قیمت پر فروخت بھی کی جائیں گی۔ ان سے جو رقم حاصل ہوگی وہ اسی کام میں صرف ہوگی، یعنی مزید کتابیں خرید کر اسی مقصد کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ اس ادارہ سے کوئی نفع کمانا مقصد نہیں ہے۔ اس کا واحد مقصد دعوت دین ہے۔ کیا اس کام میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟ بہ راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں ۔
جواب

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف کا بیان درج ذیل آیت میں ہوا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo (التوبۃ: ۶۰)
’’یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ، اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔‘‘
اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں ) ہے۔ قرآن و حدیث میں فی سبیل اللہ کا استعمال بہ طور اصطلاح ہوا ہے۔ اس سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد و قتال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ الفاظ جہاں جہاں آئے ہیں ، ان میں سے بیش تر مقامات پر ان سے پہلے جہاد و قتال کی صراحت موجود ہے۔ حدیث میں بھی ان کا زیادہ تر استعمال جہاد کے معنی میں ہوا ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَغَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ۔(۱)
’’اللہ کی راہ میں صبح یا شام جہاد کے لیے نکلنا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔‘‘
اسی بنا پر جمہور علماء زکوٰۃ کی اس مد کو جہاد کے لیے خاص کرتے ہیں ، لیکن علماء کا ایک دوسرا طبقہ اس کی توسیع و تعمیم کا قائل ہے۔ وہ تمام وجوہِ خیر کو اس میں شامل قرار دیتا ہے۔ اس کے قائلین میں ایک نام مشہور حنفی فقیہ امام شوکانیؒ (م ۵۸۷ھ) صاحب بدائع الصنائع کا ہے۔ امام رازیؒ (م ۶۰۶ھ) نے لکھا ہے کہ امام قفالؒ نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء کا یہی قول نقل کیا ہے۔ نواب صدیق حسن خاں ؒ (م ۱۸۹۰ء) کی بھی یہی رائے ہے۔ موجودہ دور کے علماء میں مولانا ابو الکلام آزادؒ (۱۹۵۸ء) مولانا سید سلیمان ندویؒ (۱۹۵۳ء) مولانا امین احسن اصلاحیؒ (۱۹۹۷ء) اور مولانا محمد شہاب الدین ندویؒ (م ۲۰۰۲ء) وغیرہ بھی اس مد میں تعمیم کے قائل ہیں ۔
کچھ علماء نے بین بین کی راہ اپنائی ہے۔ وہ ’فی سبیل اللہ‘ کو نہ تو قتال اور عسکری جدو جہد کے معنی میں محدود کرتے ہیں اور نہ اس میں اتنے عموم کے قائل ہیں کہ اس میں ہر کار خیر شامل ہوجائے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاد کا وسیع مفہوم ہے۔ اس میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی ہر کوشش شامل ہے۔ موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب فقہ الزکوٰۃ میں اس نقطۂ نظر کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’میں سبیل اللہ کا مدلول متعین کرنے میں ایسے توسع کا قائل نہیں کہ ہر قسم کے مصالح اور تقرب کے کام اس میں شامل ہوجائیں اور نہ اس کے دائرہ کو اتنا تنگ سمجھتا ہوں کہ وہ صرف عسکری جہاد کے لیے خاص ہوکر رہ جائے۔ جہاد جس طرح تلوار اور نیزہ سے کیا جاتا ہے اسی طرح زبان اور قلم سے بھی کیا جاتا ہے اور جس طرح جہاد عسکری ہوتا ہے اسی طرح فکری، تربیتی، اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی بھی ہوتا ہے۔‘‘ (۱)
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب ڈاکٹر قرضاوی نے ان الفاظ میں دیا ہے:
’’میری رائے یہ ہے کہ فی سبیل اللہ کو نہ صرف جہاد پرمحمول کیا جائے اور نہ اسے عام کرکے ہر اس کام پر محمول کیا جائے جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوش نودی کے لیے ہو۔ بے شبہ فی سبیل اللہ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے۔ یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے۔ جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا، بلکہ کبھی قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے، کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے اسے فی سبیل اللہ کے مفہوم میں شامل کیا جاسکتاہے۔‘‘ (۱)
آگے انھوں نے زکوٰۃ کے ترجیحی مصارف ان الفاظ میں بیان کیے ہیں :
’’میری رائے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنھیں لسانی، ثقافتی اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ذیل میں میں بعض ایسی صورتیں پیش کرتا ہوں :
(۱) اسلامی دعوتی مرکز کا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔
(۲) خود اسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام، جہاں مسلم نوجوانوں کی عملی تربیت ہوسکے اور انھیں اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جاسکے۔
(۳) اسلامی اخبارات و جرائد کا اجراء، جو غیر اسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔
(۴) اسلامی کتب کی نشر و اشاعت، جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اجاگر کیا جائے۔
یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنی چاہیے۔ بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہر ممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔ (۲)
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں آیت زکوٰۃ (التوبۃ: ۶۰) میں ’فی سبیل اللہ‘ کی جو تشریح کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے مفہوم میں ہر کار ِ خیر کو شامل نہیں کرتے، بلکہ اسے جہا د ہی کے لیے خاص کرتے ہیں ، لیکن جہاد ان کے نزدیک وسیع تر معنیٰ میں ہے۔ لکھتے ہیں :
’’راہِ خدا کا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام، جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی روٗ سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔۔۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو قتال کا ہم معنیٰ ہے۔ اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۂ کفر کو پست اور کلمۂ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں ، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں ، یا قتال کے آخری مرحلے میں ۔‘‘ (۱)
اس موقع پر موجودہ دور کی دو فقہی اکیڈمیوں کے فیصلوں کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے پانچویں سمینار منعقد جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ ۱۹۹۲ء میں یہ موضوع زیر بحث تھا۔ عام شرکائے سمینار کا نقطۂ نظریہ تھا کہ سورۂ توبہ: ۶۰ میں مذکور فی سبیل اللہ کا مصداق غزوہ اور جہاد عسکری ہے۔ دور حاضر میں دینی اور دعوتی کاموں کے لیے درکار سرمایہ کی فراہمی میں پیش آنے والی دشواری کے باوجود شرعاً اس کی گنجائش نہیں ہے کہ زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا دائرہ وسیع کرکے اس میں تمام دینی اور دعوتی کاموں کو شامل کرلیا جائے۔ البتہ تین حضرات (جناب شمس پیر زادہ، مولانا سلطان احمد اصلاحی اور ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی) نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ان کے نزدیک فی سبیل اللہ میں عسکری جہاد کے ساتھ وہ تمام کوششیں شامل ہیں جو آج کے دور میں واقعتاً دعوت ِ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جا رہی ہوں ۔‘‘ (۲)
عالم اسلام کی ایک دوسری فقہی اکیڈمی کا فیصلہ اس سے مختلف ہے۔ المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ رابطہ عالم اسلامی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس نے اپنے آٹھویں اجلاس منعقدہ مکہ مکرمہ ۱۴۰۵ھ؍ ۱۹۵۸ء میں اس موضوع پر غور کیا۔ علما کی دو رائیں سامنے آئیں ۔ ایک یہ کہ مصرف فی سبیل اللہ کا مصداق صرف اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور دوسری یہ کہ اس کا مفہوم عام ہے۔ موضوع پر غور اور فریقین کے دلائل پر بحث و مباحثہ کے بعد اکثریت کی رائے سے درج ذیل فیصلے کیے گئے:
(۱) دوسری رائے کو بعض علمائے اسلام نے اختیار کیا ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات میں یک گونہ اس مفہوم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
(۲) جہاد بالسلاح کا مقصد چوں کہ اعلائے کلمۃ اللہ ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ جس طرح قتال سے ہوتا ہے اسی طرح داعیوں کی تیاری اور ان کی مدد اور تعاون کے ذریعے دعوت الی اللہ اور اشاعت دین سے بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا دونوں طریقے جہاد ہی کے ہیں ۔
(۳) اسلام پر آج ملحدین، یہود و نصاریٰ اور دشمنان ِ دین کی طرف سے فکری اور عقائدی حملے ہو رہے ہیں اور دوسروں کی طرف سے انھیں مادی اور معنوی مدد مل رہی ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان ان کا مقابلہ انہی ہتھیاروں سے کریں جن سے وہ اسلام پر حملے کرتے ہیں یا ان سے سخت ہتھیار سے مقابلہ کریں ۔
(۴) اسلامی ممالک میں جنگ کے لیے مخصوص وزارتیں ہوتی ہیں اور ہر ملک کے بجٹ میں ان کے لیے مالی ضوابط ہوتے ہیں ، جب کہ دعوتی جہاد کے لیے بیش تر ممالک کے بجٹ میں کوئی تعاون و مدد بھی نہیں ہوتی ہے۔
ان مذکورہ بالا امور کے پیش نظر اکثریت کی رائے یہ طے کرتی ہے کہ دعوت الیٰ اللہ اور اس کے معاون اعمال آیت کریمہ میں مذکور زکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔‘‘ (۱)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض معتبر علماء کے نزدیک اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کاموں میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ بعض فقہی اکیڈمیوں کا فیصلہ بھی اسی کے حق میں ہے اور راقم سطور بھی اسی کا قائل ہے۔