تراویح کی رکعات؟

م تراویح کی بیس(۲۰) رکعت پڑھتے ہیں ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ تراویح کی آٹھ (۸) رکعت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیشہ آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے۔براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔یہ بھی بتائیں کہ کیا بیس (۲۰)رکعت سے کم تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب

ہرسال ماہِ رمضان سے پہلے گھمسان شروع ہوجاتا ہے ۔اہل حدیث حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان اورغیر رمضان میں  ہمیشہ آٹھ(۸)رکعات تہجد کی نماز پڑھی ہے۔ یہی رمضان کی تراویح ہے، جب کہ احناف پورازوریہ ثابت کرنے پر لگاتے ہیں  کہ تراویح کی رکعتیں بیس(۲۰)ہیں ۔خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطابؓ کے عہد خلافت سے اس کا آغاز ہواہے اور اس وقت سے اب تک اس پر عمل ہورہاہے۔اس موضوع پراب تک سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ ہر فریق نے اپنے موقف کے دلائل پیش کیے ہیں اور دوسرے فریق کے دلائل کاردکیا ہے۔لیکن یہ مسئلہ اب تک طے ہوپایا ہےنہ آئندہ اس کے طے پانے کی امید ہے۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ امت کے بہترین دماغوں  نے اپنی صلاحیتیں  بے مصرف کاموں میں صرف کی ہیں اور اب بھی انہی میں لگے ہوئے ہیں ۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں  روزانہ رات کے آخری پہر ہمیشہ گیارہ(۱۱)رکعات(۸تہجد+۳وتر) پڑھی ہیں ۔(بخاری ۱۱۴۷، مسلم ۷۳۸) اگر کوئی شخص اس کو معمول بنالے توسنت ِنبوی کی پیروی کرنے والا ہوگا۔
بعض احادیث سے اللہ کے رسول ﷺ کا رات میں تیرہ(۱۳)رکعتیں (۱۰تہجد +۳وتر) پڑھنا ثابت ہے۔(بخاری۱۱۳۸،مسلم ۷۶۳) اس لیے اس کا شمار بھی سنت ہی میں  ہوگا۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے برس (۱۴ھ میں ) تراویح کی باجماعت نماز کا آغاز کروایا۔اس کی رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں آٹھ(۸)رکعات ہی مذکورہیں ،جب کہ بعض میں  ہے کہ حضرت عمر نےبیس(۲۰)رکعتیں پڑھے جانے کا حکم دیا تھااور تمام صحابہ نے اس سے اتفاق کیا تھا، کسی نے اس پر نکیر نہیں  کی تھی۔ اس لیے اس پر بھی عمل کیاجاسکتا ہے۔
بعض علما نے یوں  تطبیق دینے کی کوشش کی کہ حضرت عمر نے ابتدا میں آٹھ(۸) رکعتوں  کا ہی حکم دیا تھا ۔اس کی وجہ سے لوگوں کو طویل قیام کرنا پڑتا تھا۔ انھوں نے زحمت محسوس کی تو پھر حضرت عمر نے بیس (۲۰)رکعات پڑھے جانے کا حکم دیا۔
اہل مکہ ہرچار(۴)رکعات کے بعد وقفہ(ترویحہ) کے دوران طواف کرنے لگتے تھے۔ اس کا بھی ثواب ہے۔ اہل مدینہ ثواب میں ان کی برابری کی خاطر طواف کی جگہ نوافل پڑھنے لگے۔ اس طرح ان کی رکعتوں کی تعدادچھتیس(۳۶)ہوگئی۔(بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے زمانے سےچھتیس(۳۶)رکعتیں پڑھی جانے لگیں ۔) چنانچہ مالکیہ نے اس رائے کو اختیار کرلیا۔
رمضان کی راتوں میں عبادت کی غیر معمولی فضیلت احادیث میں  بیان کی گئی ہے۔ تراویح نفلی عبادت ہے۔(اصطلاح طورپر سنت کا شمار بھی نوافل میں ہوتا ہے۔) جو شخص جتنے زیادہ نوافل پڑھ لے اتنا ہی اسے ثواب ملے گا۔ اس لیے تراویح کی تعداد کو بحث وجدال کا موضوع بنانا دانش مندی نہیں ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔انھوں  نے لکھا ہے
’’قیام رمضان کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں  فرمائی ہے۔آپ نے رمضان اورغیررمضان میں  کبھی تیرہ(۱۳)رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی ہے۔لیکن آپ ہر رکعت میں طویل قیام کرتے تھے۔ جب حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں  باجماعت نماز تراویح شروع کروائی تو وہ بیس(۲۰)رکعت تراویح اور تین (۳)رکعت وتر پڑھاتے تھے۔رکعتوں  کی تعداد زیادہ ہوجانے کی بناپر وہ ہر رکعت میں  مختصر قرأت کرتے تھے۔اس سے نماز پڑھنے والوں کو آسانی ہوگئی کہ انہیں طویل قیام نہیں  کرنا پڑتا تھا۔ بعد میں سلف میں سے بعض لوگ چالیس(۴۰) رکعتیں  تراویح اورتین (۳)رکعت وتر پڑھنے لگے۔ بعض لوگوں نےچھتیس(۳۶) رکعت تراویح اورتین(۳)رکعت وتر پڑھنی شروع کردی۔ ان سب کی گنجائش ہے۔ چاہے جتنی رکعتیں  پڑھ لی جائیں ،بہتر ہے۔نمازیوں  کے حالات کے اعتبار سے افضل حکم بدلتا رہتاہے۔ اگر کوئی شخص طویل قیام کرسکتاہے تو اس کے لیےدس (۱۰)رکعت تراویح اورتین (۳)رکعت وتر پڑھنا افضل ہے،جیساکہ نبی ﷺ رمضان اور غیررمضان میں کرتے تھے۔اوراگر وہ طویل قیام نہیں کرسکتا تواس کے لیےبیس(۲۰)رکعت پڑھنا افضل ہے،جیسا کہ مسلمان کرتے ہیں ۔یہ تعداددس(۱۰) اورچالیس(۴۰) کے درمیان ہے۔اگر وہ تراویح میں چالیس رکعتیں  پڑھ لے، یا اس کے علاوہ کسی تعداد میں پڑھ لے توبھی جائز ہے۔ اس میں کچھ کراہت نہیں ہے۔متعدد ائمہ مثلاً امام احمد وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ قیام رمضان میں رکعتوں کی تعداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے متعین ہے، جس میں کمی یا زیادتی نہیں کی جاسکتی، وہ غلطی پرہے۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ۲۷۲؍۲۲)