تفویضِ طلاق

کیا عورت نکاح کے وقت ’تفویضِ طلاق‘ کو نکاح نامہ میں لکھواسکتی ہے؟یا بعد میں طے کرسکتی ہے؟
جواب

تفویضِ طلاق کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو یہ حق دے کہ وہ جب چاہے اپنے اوپر طلاق عائد کرکے اس سے علیٰحدگی حاصل کرلے۔ یہ اصلاً اپنے کسی کام کی انجام دہی کے لیے کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانے کا معاملہ ہے۔ چنانچہ تفویض طلاق کا حق شوہر کسی دوسرے مرد کو دے سکتاہے اور بیوی کو بھی۔ لیکن یہ چیز روح ِ شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ شریعت نے طلاق کا حق عورت کو نہیں دیاہے، مرد کو دیاہے؟!بڑا بے وقوف ہوگا وہ شخص جو نکاح کی صورت میں عورت کو مہر دے، نکاح کے مصارف برداشت کرے، ولیمہ کرے، عورت کے لیے رہائش فراہم کرے، اسے نفقہ دے، اس کے جملہ اخراجات اٹھائے اور ساتھ ہی عورت کو یہ حق بھی دے دے کہ وہ جب چاہے اپنے اوپر طلاق عائد کرکے اس سے علیٰحدہ ہوجائے۔
بہ ہرحال تفویض ِ طلاق کا حق عورت کو نکاح کے وقت بھی دیاجاسکتاہے اور بعد میں بھی، البتہ اس سے شوہرکا حق ِ طلاق ختم نہیں ہوجاتا، اس کے پاس بھی طلاق دینے کا حق باقی رہتاہے۔