جمعہ کےدن کا روزہ؟

:ایک صاحب نے کہا کہ احادیث میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں  آرہی ہے۔بہ راہ کرم وضاحت فرمادیں ، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر ممانعت ثابت ہے تو اس کی حکمت پربھی کچھ روشنی ڈال دیں ۔
جواب

جمعہ کے دن نفلی روزہ کی ممانعت کے سلسلے میں  متعدد روایات آئی ہیں ۔ بعض سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہﷺ نے صرف جمعہ کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ بعض میں  ہے کہ اگر آدمی جمعہ سے قبل یا اس کے بعد والے دن میں  روزہ رکھ لے تو جمعہ کو بھی رکھ سکتا ہے۔ بعض میں ہے کہ اگر جمعہ کے دن کوئی ایسا روزہ آجائے جسے رکھنے کا معمول ہوتو صرف اس دن (ایک روزہ) بھی رکھا جاسکتا ہے۔ وہ احادیث درج ذیل ہیں 
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے دریافت کیا گیا کیا رسول اللہﷺ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے؟انھوں نے جواب دیاہاں ۔(مسلم۱۱۴۳)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
لَایَصُوْمَنَّ اَحَدُکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ اِلَّا یَوْماً قَبْلَہٗ اَوْ بَعْدَہٗ
(بخاری ۱۹۸۵)
’’تم میں  سے کوئی شخص صرف جمعہ کے دن ہر گز روزہ نہ رکھے۔اگر رکھنا چاہے تو اس کے ساتھ ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے۔‘‘
ام المومنین حضرت جویریہؓ بنت الحارث سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ ایک مرتبہ جمعہ کے دن ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ وہ روزہ سے تھیں ۔آپؐ نے دریافت کیا کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟انھوں نے جواب دیا نہیں ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کیا تمہارا کل بھی روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ انھوں  نے جواب دیا نہیں ۔تب آپؐ نے ارشاد فرمایاپھر آج بھی نہ رکھو۔(بخاری۱۹۸۶)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
وَلَا تَخُصُّوایَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِصِیَامٍ مِنْ بَیْنِ الْاَیَّامِ ،إِلَّا اَنْ یَکُوْنَ فِیْ صَوْمٍ یَصُوْمُہُ اَحَدُکُمْ (مسلم۱۱۴۴)
’’صرف جمعہ کو خاص کرکے روزہ نہ رکھو، الّا یہ کہ اس دن کوئی ایسا روزہ آجائے جسے تم میں سے کوئی رکھتا ہو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا ہے’’ رسول اللہ ﷺ ہرماہ کے ابتدائی تین دن روزہ رکھتے تھے۔ ایسا بہت کم ہواکہ آپؐ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ۔‘‘ (ترمذی۷۴۲،نسائی۲۳۶۸،احمد۳۸۶۰)
ان احادیث کی بناپرفقہا کی آرا میں اختلا ف ہوگیا ہے۔امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک صرف جمعہ کو روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔احناف میں  سے قاضی ابویوسفؒ کی بھی یہی رائے ہے۔یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جمعہ کو روزہ رکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ جمعرات یا سنیچر کو بھی روزے رکھے۔ البتہ حدیث میں جن نفلی روزوں  کی فضیلت آئی ہے، مثلاً یوم عرفہ یا یوم عاشورا کا روزہ ،اگریہ جمعہ کے دن ہوتو رکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح کسی روزے کی قضا بھی جمعہ کے دن کی جاسکتی ہے۔
امام نوویؒ نے صرف جمعہ کے دن روزہ کی ممانعت کی یہ حکمت بیان کی ہے
’’جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے خوشی کا ہوتا ہے۔اس میں ذکر، عبادات، دعا اور رسول اللہ ﷺ پرکثرت سے صلاۃ وسلام کا استحباب بیان کیا گیا ہے۔اس چیز کو افضل قراردیا گیا ہے کہ آدمی غسل کرے،نماز جمعہ کے لیے جلد مسجد جائے ،نماز کا انتظار کرے، خطبہ سنے، اللہ کا ذکر کرے، وغیرہ۔ روزہ رکھنے سے آدمی بسا اوقات کم زوری محسوس کرے گا۔ اس لیے اس دن اس کا روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، تاکہ یہ تمام عبادات نشاط، دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بغیر تھکن اور اکتاہٹ کے ادا ہوں ۔ یہ ممانعت ویسی ہی ہے جیسے میدان عرفات میں  حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنے کا حکم ہے۔‘‘ (المجموع شرح المھذ ب، کتاب الصیام، باب صوم التطوع، ۶؍۴۷۶، المطبعۃ المنیریۃ)
امام ابوحنیفہؒ اوران کے شاگرد امام محمدؒ کے نزدیک جمعہ کے دن بلاکراہت روزہ رکھاجاسکتا ہے۔امام مالکؒ تو جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مستحب قراردیتے ہیں ۔انھوں نے مؤطا میں  لکھا ہے’’ میں  نے نہیں سنا کہ کوئی ایسا شخص جو اصحابِ علم وفقہ میں سے ہو اور جس کی اقتدا کی جاتی ہو، وہ جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کرتاہو۔اس دن روزہ رکھنا بہتر ہے۔ میں  نے بعض اہل علم کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ اس کا اہتمام کرتے تھے۔‘‘
(مؤطا امام مالک۸۶۵)
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں ’’ متعدد اصحابِ علم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کو مستحب قراردیا ہے، مکروہ یہ ہے کہ صرف جمعہ کے دن روزہ رکھاجائے، اس سے قبل یا بعد میں ایک اوردن روزہ نہ رکھا جائے۔‘‘ (ترمذی۷۴۲)
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ صرف جمعہ کے دن روزہ رکھاجاسکتا ہے، البتہ اس کے ساتھ ایک اور دن ملا لینا بہترہے۔