جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ’اسلامی خاندان‘ کے نام سے ایک مجموعۂ مقالات شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ص ۵۲ پر یہ حدیث درج ہے: ’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو اچھی لگی۔ آپؐ اسی وقت زوجۂ مطہرہ حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس دوسری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپؐ نے تنہائی حاصل کی اور اپنی ضرورت پوری کی، پھر فرمایا: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو بھلی لگے، اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے، کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘ اس حدیث کو پڑھ کر میں سخت پریشانی اور الجھن میں پڑگیا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالی اور اتنی دیر تک ڈالی کہ وہ ان کو اچھی لگی۔ کیا واقعی پیغمبر غیر محرم عورت پر نگاہ جماتے تھے؟ کیا واقعی پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دے اور کہے کہ اگر کوئی عورت تم دیکھو اور وہ بھلی لگے تو فوراً اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ اگرکوئی مرد کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہو تو وہ کہاں جائے؟ اس حدیث سے یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اس وقت عورتیں بے پردہ رہتی تھیں یا ہوسکتا ہے کہ یہ احکامِ پردہ سے پہلے کا واقعہ ہو۔ میری اس الجھن کو رفع فرمائیں ۔ عنایت ہوگی۔
جواب

جو حدیث اوپر بیان کی گئی ہے، اس کا حوالہ ’اسلامی خاندان‘ میں مشکوٰۃ المصابیح کا دیا گیا ہے۔ مشکوٰۃ میں اسے سنن دارمی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔(۱) دارمی کے علاوہ یہ بیہقی کی شعب الایمان میں بھی مروی ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ البتہ اس میں ام المومنین حضرت زینبؓ کا نام آیاہے۔ اس کی تخریج مسلم، ابو داؤد، بیہقی اور احمد نے کی ہے۔(۲) اس سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں آیا ہے، جو حضرت ابو کبشہ الانماریؓ سے مروی ہے اور اس کی روایت احمد اور طبرانی نے (الاوسط میں ) کی ہے اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بھی اسے نقل کیا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ نے اس حدیث کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں جگہ دی ہے اور اس کے تمام طرق نقل کرکے ان پر بحث کی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔
درایت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر کوئی اشکال یا شبہ وارد ہو، بلکہ اس سے چند اہم نکات کا استنباط ہوتا ہے۔
۱- اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی بشریت نمایاں ہوتی ہے۔ آپؐ نے دوسرے انسانوں کی طرح شادی شدہ زندگی گزاری۔ آپؐ دوسرے انسانوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور دیگر انسانی ضروریات پوری کرتے تھے، دوسرے انسانوں کی طرح آپؐپر بشری جذبات طاری ہوتے تھے اور آپ جواز کی حدود میں رہتے ہوئے ان کی تکمیل فرمایا کرتے تھے۔
۲- کسی غیر محرم عورت پر کسی مرد کی نظر پڑ جائے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ وہ فوراً اپنی نظریں پھیرلے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
یَـا عَلِیّ! لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الْاُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃَ ۔(۱)
’’اے علی! (کسی غیر محرم عورت پر) ایک بار نظر پڑجائے تو دوبارہ نہ دیکھو۔ اس لیے کہ پہلی نظر تو معاف ہے، لیکن دوسری مرتبہ دیکھنے کا تمھیں حق نہیں ۔‘‘
حضرت جریر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر کسی غیر محرم عورت پر اچانک نگاہ پڑجائے تو کیا کروں ؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی نگاہ پھیرلو۔‘‘ (۲)
زیر ِبحث حدیث سے بھی اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے۔ جس بات کا حدیث سے اظہار نہ ہوتا ہے اسے ہم اپنی طرف سے فرض کرلیں ، پھر اس پر اعتراض جڑ دیں ، یہ کوئی درست اور معقول رویّہ نہیں ہے۔ نعوذ باللہ اس حدیث میں کہاں یہ بات آئی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی غیر محرم عورت پر دیر تک نظر ڈالی یا یہ کہ آپ غیر محرم عورتوں پر نگاہ جماتے تھے۔ کوئی چیز دل کو بھلی لگ جائے اس کے لیے اسے بار بار دیکھنا، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا یا گھورنا ضروری نہیں ہے، یہ ایک بار دیکھنے سے بھی ہوسکتا ہے۔
۳- اس حدیث میں غیر محرم عورتوں کو دیکھنے کی ترغیب نہیں دی گئی ہے، بلکہ اگر کبھی کسی غیر محرم عورت پر نگاہ پڑجائے اور اس کے نتیجے میں دل میں نفسانی خواہش پیدا ہوتو اس کا علاج بتایا گیا ہے۔
جنس (Sex) کے تعلق سے اسلام کا نقطۂ نظر اعتدال اور توازن پر مبنی ہے۔ وہ نہ تو جنسی خواہش کو کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ اسے بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ بغیر حدود و قیود کے جس طرح بھی کوئی شخص چاہے، اس کی تکمیل کرلے۔ بلکہ اسلام جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا ہے۔ حضرت ابوکبشہؓ سے مروی حدیث کے آخر میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:
فَاِنَّہٗ مِنْ اَمَاثِلِ اَعْمَالِکُمْ اِتْیَانُ الْحَلاَلِ ۔(۱)
’’تمھارے بہترین اعمال میں سے یہ ہے کہ تم (جنسی خواہش پوری کرنے کا) جائز طریقہ اختیار کرو۔‘‘
۴- کوئی شخص کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے نکاح کرے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی بالغ مرد بغیر بیوی کے اور کوئی بالغ عورت بغیر شوہر کے رہے۔ وہ سرپرستوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ماتحتوں کے نکاح کا جلد از جلد انتظام کریں ۔ اس کے باوجود جو لوگ سماج میں غیر شادی شدہ ہوں اور کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوپایا ہو انھیں اسلام اپنے جنسی جذبات پر قابو رکھنے کی مختلف تدابیر بتاتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَ َۃ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہٗ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ اَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہٗ لَہٗ وِجَائٌ ۔(۲)
’’تم میں سے جو شخص نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے، اس لیے کہ یہ نگاہ کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت کا بہترین طریقہ ہے۔ اور جو شخص اس پر قادر نہ ہو وہ روزہ رکھے۔ اس سے اس کی جنسی خواہش کنٹرول میں رہے گی۔‘‘
۵- عہد نبوی کے متعدد واقعات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بعض خواتین اپنے چہرے ڈھکے رکھتی تھیں اور بعض اپنے چہرے کھلے رکھتی تھیں ۔ اس لیے زیر بحث حدیث کو احکام پردہ کے نزول سے پہلے کا ماننا ضروری نہیں ۔