حج بدل

کیا حج ِ بدل کوئی ایسا شخص کرسکتا ہے، جس نے خود پہلے حج نہ کیا ہو؟
جواب

کسی شخص پر حج فرض ہوگیا ہو اور وہ مرض، بڑھاپا یا کسی اور وجہ سے حج نہ کرسکے، تووہ دوسرے شخص کو اپنی جگہ حج پر بھیج سکتا ہے۔ اسے حج بدل کہتے ہیں ۔ حج ِ بدل زندہ شخص کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے اور میت کی طرف سے بھی۔
حضرت فضل بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر قبیلۂ خثعم کی ایک عورت نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے۔ میرے باپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ اتنے کہ سواری پر ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آں حضرت ﷺ نے جواب دیا: ہاں ۔
(بخاری: ۱۵۱۳، مسلم: ۱۳۳۴)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن اس کا انتقال ہوگیا اور وہ حج نہ کرسکی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ، اس کی طرف سے حج کرو۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اگر تمھاری ماں پر کسی کا قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا نہ کرتیں ؟ یہ اللہ کا قرض ہے۔ اس کا زیادہ حق ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔‘‘ (بخاری: ۱۸۵۲)
ان احادیث کی بنا پر جمہور فقہاء (احناف، شوافع اور حنابلہ) حج ِ بدل کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ البتہ مالکیہ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک حج بدنی عبادت بھی ہے۔ اسے کسی شخص کی طرف سے کوئی دوسرا شخص ادا نہیں کرسکتا۔
جس شخص نے خود حج نہ کیا ہو، کیا وہ دوسرے شخص کی طرف حج کرسکتا ہے؟ اس سلسلے میں حج ِ بدل کے جوازکے قائل فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ حج ِ بدل صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ دلیل میں وہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک حدیث پیش کرتے ہیں ، جس میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’شبرمہ کی طرف سے لبیک‘‘ آپؐ نے اس سے دریافت فرمایا: یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا بھائی۔ آپؐ نے پھر سوال کیا: کیا تم اپنا حج کرچکے ہو؟ اس نے کہا: نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: پہلے اپنا حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔‘‘ (ابو داؤد: ۱۸۱۱، ابن ماجہ: ۲۹۰۳)
احناف کے نزدیک جس شخص نے اپنا حج نہ کیا ہو وہ بھی حج ِ بدل کرسکتا ہے۔ لیکن ایسے شخص سے حج کرانا مکروہ ہے۔ اگر اس پر اپنا حج واجب ہو تو اس سے حج کرانا مکروہ تحریمی اور واجب نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ وہ جواز کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے خثعمی عورت سے کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی تھی کہ وہ اپنا حج کرچکی ہے یا نہیں ، اور اس سے مطلقاً فرمایا تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرف سے حج کرے۔