حرمت ِ مصاہرت کے بعض احکام

ندرہ(۱۵)برس پہلے میری شادی ہوئی۔ دس(۱۰)برس ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، جن سے میرے تین بچے ہوئے ایک بیٹی اور دوبیٹے۔ میری سسرال والوں نے میرے مرحوم شوہر کے چھوٹے بھائی سے میرے نکاح کی تجویزدی۔ میرادیور مجھ سے ۶،۷سال چھوٹا تھا۔بہرحال ہمارا نکاح ہوگیا اوراس سے بھی میرے دوبیٹے ہوئے ہیں ، جوابھی کم سن ہیں ۔ چند ایام قبل ایک افسوس ناک صورت حال پیداہوگئی کہ میرے موجودہ شوہر نے میری بیٹی (جو اس کی اپنی بھتیجی بھی ہےاور ابھی تیرہ برس کی ہے) کی شرم گاہ کو شہوت سے چھو ا۔ دومرتبہ کپڑوں کے اوپر سے اورایک بار زبردستی زیر جامہ بھی ہاتھ سےمَس کیا، تاہم زنا نہیں کیا۔ اس صورت حال میں ،میں سخت صدمہ کی حالت میں ہوں ۔ یہ بات میں نے اپنی ایک صاحب علم سہیلی کو بتائی تو انھوں نے کہا ’’تمہارا نکاح ٹوٹ گیا اوراب تم اس کی بیوی نہیں  رہی۔‘‘ میں  یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا واقعی میرے شوہر کی اس دست درازی سے میرا نکاح ٹوٹ گیا ہے؟ اورہم ایک دوسرے کے لیے حرام ہوگئے ہیں ؟میں سخت پریشان ہوں  کہ میرے ان پانچ بچوں  اور مجھے اس فرد کی بے حیائی کی کیوں سزاملے؟یادرہے،میراشوہر اپنی اس حرکت پرسخت نادم ہے۔
جواب

صل سوال کا جواب دینے سے قبل اس جانب توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلی فرصت میں گھرکا وہ ماحول لازماً تبدیل کردیاجائے جس میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔مرد سے ایک انتہائی گھنائونی حرکت سرزد ہوئی ہے کہ اس نے اپنی بھتیجی اور ’ربیبہ‘(بیوی کی لڑکی جو دوسرے شوہر سے ہو) کے ساتھ دست درازی کی۔اسے توبہ واستغفار کرنا چاہیے اورگڑگڑاکر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے کہ شیطان کے بہکاوے اورنفس کی شرارت سے مغلوب ہوکر اس سے یہ نہایت غلط کام سرزد ہوا۔ لڑکی کو اس گھر سے ہٹاکر کسی محفوظ جگہ (ننیہال یا کہیں اور) رکھنا چاہیے، تاکہ آئندہ اس مرد(سوتیلے باپ) کے ساتھ اس کا آمنا سامنا نہ ہواور اس سے اختلاط اور خلوت کے مواقع ختم ہوجائیں ۔ عورت ہوشیار اور بے دار رہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ آئندہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ اورکہیں نہ پیش آئے۔
جہاں تک مذکورہ واقعہ کے بارے میں شرعی حکم کا تعلق ہے ،فقہ میں اسے ’حرمت ِ مصاہرت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عورت سے کسی مرد نے جنسی تعلق قائم کیا ہو،اس کی بیٹی اور ماں اس (مرد) پرحرام ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح مرد پروہ عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے جس سے اس کے باپ یا بیٹے نے جنسی تعلق قائم کیا ہو۔ جنسی تعلق جائز بھی ہوسکتا ہے،یعنی نکاح کے بعد ہواہو اور ناجائز بھی ،یعنی بغیر نکاح کے ہواہو۔اول الذکر صورت میں تمام فقہا کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔لیکن اگر کسی شخص نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا ہو تو اس کے سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔
احناف کے نزدیک اس کی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی۔ اس میں زنا اور مقدمات زنا دونوں شامل ہیں ۔ اس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے زنا کرلے، یا شہوت کے ساتھ اس کا بوسہ لے ،یا چھولے ،یا اس کی شرم گاہ دیکھ لے تو اس کی ماں  (خواہ اس کی بیوی ہو) اس پر حرام ہوجائے گی۔دلیل کے طورپر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
مَنْ نَظَرَ اِلٰی فَرْج اِمَرأْۃٍ لَمْ تَحِلَّ لَہُ اُمُّھَا وَلَا بِنْتُھَا
’’جس شخص نے کسی عورت کی شرم گاہ دیکھی، اس کی ماں  اور بیٹی اس کے لیے حلال نہیں رہیں گی۔‘‘
یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ (۴؍۱۶۵) میں  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے۔ اس کی روایت بعض اور صحابہ سے بھی ہے۔ بعض روایات موقوف اوربعض مرسل ہیں ، لیکن سب میں کوئی نہ کوئی ضعف پایا جاتاہے۔
یہی رائے حنابلہ کی بھی ہے، لیکن ان کے نزدیک حرمتِ مصاہرت صرف زنا سے ثابت ہوتی ہے، مقدمات زنا سے نہیں ۔
امام مالک ؒ سے ایک قول احناف کے مثل حرمت کا ابن قاسم ؒ نے نقل کیا ہے۔ لیکن سحنونؒ کہتے ہیں کہ اصحاب مالک ابن قاسم کی روایت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام مالکؒ کی اصل رائے وہ ہے جو ان کی کتاب ’الموطا‘ میں  مذکورہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔
شوافع کا مسلک اس معاملے میں دوٹوک ہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی ماں  یا بیٹی سے زنا کرلے تو بیوی اس پر حرام نہیں ہوجاتی۔ اس کی دلیل کے طورپر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک موقع پر دریافت کیاگیا کہ ایک شخص ایک عورت سے بدکاری کرے، پھر اس کی بیٹی سے نکاح کرے، یا بیٹی سے بدکاری کرے، پھراس کی ماں سے نکاح کرے۔ کیا یہ جائز ہے؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا
لَایُحَرِّمُ الْحَرَامُ الحَلاَلَ،اِنَّمَا یُحَرِّمُ مَاکَانَ بِنِکَاحٍ حَلَالٍ
’’ایک شخص کوئی حرام کام (یعنی زنا) کرے تو اس سے حلال کام (یعنی نکاح) حرام نہیں  ہوجاتا،بلکہ جائز طریقے سے نکاح کرنے پر کچھ رشتے حرام ہوتے ہیں ۔‘‘
یہ روایت ہیثمی کی مجمع الزوائد(۴؍۲۶۸)، طبرانی کی المعجم الاوسط(۵؍۱۰۴) اور دیگر کتب میں آئی ہے، لیکن اس کی سند میں  بھی ضعف پایا جاتا ہے۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ حرمت مصاہرت ایک نعمت ہے۔ نکاح کے ذریعہ اجنبی لوگ قریبی رشتے دار بن جاتے ہیں ، اس بناپر ان سے نکاح حرام ٹھہرتا ہے،جب کہ زنا حرام ہے،پھر وہ اس نعمت کا سبب کیسے بن سکتا ہے؟ اس موضوع پر امام محمد بن حسن شیبانی ؒ سے امام شافعی ؒ کا مناظرہ ہواتھا توانھوں  نے فرمایا تھا ’’ایک جنسی تعلق (بعد نکاح ) عورت کے لیے قابل ِتعریف ہوتا ہے اور وہ مضبوط حصار میں چلی جاتی ہے۔دوسرے جنسی تعلق (بغیر نکاح ) پر اسے سنگ سارکیا جاتاہے۔ ایک نعمت ہے، اس سے نسبی اور سسرالی رشتے قائم ہوتے ہیں اور حقوق عائد ہوتے ہیں ۔دوسرا قابلِ سزا عمل ہے۔پھر دونوں ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں ؟‘‘
سوال میں جن مسائل کا تذکرہ کیاگیا ہے وہ قابلِ غور ہیں ۔ پانچ چھوٹے چھوٹے بچے پرورش، تربیت اور کفالت کے محتاج ہیں ۔مرد اورعورت کے درمیان رشتۂ نکاح ختم کردینے کی صورت میں ان بچوں  کی صحیح طریقے سے پرورش نہیں ہوسکے گی۔پہلے شوہر کے انتقال کے بعد عورت اور اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے مقصد سے ہی اس کا دوسرا نکاح اس کے دیور سے کردیاگیا تھا ۔اب ان کے درمیان حرمت کا فیصلہ کردینے کی صورت میں عورت پھر بے یارو مددگار ہوجائے گی۔ مزید یہ کہ اس مسئلے میں  فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔صر ف بوس وکنار اورلمس ونظر کی صورت میں ائمہ ثلاثہ حرمت مصاہرت کے قائل نہیں  ہیں ۔اس لیے مذکورہ مسئلے میں یہ رائے مقاصدِ شریعت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے کہ مرد وعورت کے درمیان رشتۂ نکاح باقی ہے۔
زنااور مقدماتِ زنا سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے سلسلے میں  فقیہ بصرہ عثمان البتّی تابعی کی رائے عملی پہلو سے مفید معلوم ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں  کہ اگر شادی سے پہلے کسی نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا ہو تواس کی بیٹی یاماں سے شادی نہیں کی جائے گی، لیکن اگر شادی کے بعد ایسی حرکت سرزد ہوجائے تو نکاح باقی رہے گا۔