خلع کا طریقہ

یک صاحب نے دوسری شادی کرلی اور کئی برس سے دوسری بیوی کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ الگ رہ رہی ہے۔ شوہر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ اب وہ خلع چاہتی ہے۔ براہِ کرم بتائیں کہ خلع کا طریقہ کیا ہے؟ کیا شوہر اس کی بات مان لے تو خلع ہوجائے گا یا اسے طلاق دینی ہوگی؟ اگر ہاں تو وہ کتنی طلاق دے گا؟ براہِ کرم یہ بھی بتائیں کہ خلع کے بعد عدت کی مدت کتنی ہوگی؟
جواب

اگر کوئی عورت کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ شوہر سے علیٰحدگی کا مطالبہ کرے تو شوہر کو اس کے مطالبے پر طلاق دے دینی چاہیے۔ البتہ اسے شوہر سے نجات حاصل کرنے کے لیے کچھ قربانی دینی ہوگی اور وہ یہ کہ شوہر نے اسے مہر کی جو رقم دی تھی اسے پورا واپس کر دے، یا اس کا ایک حصہ واپس کردے، اگر شوہرکم پر راضی ہوجائے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ (البقرۃ۲۲۹)
’’اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ دونوں (میاں بیوی) حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضایقہ نہیں کہ عورت شوہر کو معاوضہ دے کر علٰیحدگی حاصل کر لے ‘‘۔
فقہاکہتے ہیں کہ شوہر نے عورت کو جو مال دیا ہو، اس سے زیادہ اس سے بہ طور فدیہ وصول کرنا پسندیدہ نہیں ہے، لیکن اگر شوہر اس سے زیادہ لیے بغیر طلاق نہ دے رہا ہو تو اس پر بھی معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب علٰیحدگی کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو، لیکن اگر شوہر کی طرف سے کسی زیادتی یا حقوق کی عدم ادائیگی کی بنا پر عورت اس سے علٰیحدگی چاہتی ہو تو شوہر کا اس سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔
خلع کے مطالبے کو منظور کرتے ہوئے شوہر عورت کو صرف ایک طلاق دے گا۔ یہ طلاق بائن ہوگی، یعنی شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق نہ ہوگا، البتہ اگر بعد میں دونوں پھر سے ایک دوسرے سے راضی ہوجائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو یہ جائز ہوگا۔
خلع کی عدت امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک طلاق کی عدت کے مثل تین ماہ ہے۔ صحابۂ کرام میں سے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیبؒ کی بھی یہی راے تھی، جب کہ امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور داؤد ظاہریؒ کے نزدیک یہ ایک مستقل معاملہ ہے، اس لیے اس کی مدت صرف ایک ماہ ہوگی۔ حضرات صحابہ میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی بھی یہی راے تھی۔