داڑھی کی اہمیت اور اس کی مقدار کا مسئلہ

میں پہلے داڑھی نہیں رکھتا تھا۔ کچھ ملاّ لوگ کافی اعتراض کرتے تھے۔ اب میں نے خشخشی داڑھی رکھ لی ہے۔ مگر کچھ ملاّ لوگ اب بھی پریشان کرتے رہتے ہیں کہ یا تو اسے صاف کراؤ یا بڑھاؤ۔ جب کہ میرے علم میں پیمائش کے بارے میں کوئی حدیث بھی نہیں ہے اور نہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد تھا کہ کچھ لوگ داڑھی نہیں رکھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو داڑھی رکھوانے کے لیے مبعوث کیا ہو۔ لوگ اصل دین کو چھوڑ کر ایسی باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ داڑھی رکھتے ہیں مگر زندگی غیر اسلامی طریقوں پر گزرتی ہے۔ بہ راہ کرم آپ اس مسئلے پر تفصیل سے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ کتنی پیمائش کی داڑھی رکھی جائے؟ اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا تو کیا اس کا داخلہ جنت میں نہ ہوسکے گا؟
جواب

داڑھی کے سلسلے میں صحیح حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَاَرْخُوا اللُّحٰی، خَالِفُوا الْمَجُوْسَ۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، حدیث: ۲۶۰)
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو (اس طرح) مجوس کی مخالفت کرو۔‘‘
یہی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَ وَفِّرُوْا اللُّحٰی وَاَحْفُوا الشَّوَارِبَ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، حدیث: ۵۸۹۲۔یہ حدیث دیگر کتب احادیث میں بھی مروی ہے)
’’مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں صاف کرو۔‘‘
ان احادیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں :
(۱) داڑھی کے معاملے میں صحیح مسلم کی حدیث میں مجوس اور صحیح بخاری کی حدیث میں مشرکین کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات تمام محدثین نے لکھی ہے کہ اس زمانے میں مجوس عام طور پر داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے، البتہ کچھ لوگ منڈاتے بھی تھے۔ ممکن ہے انھیں دیکھ کر مشرکین بھی داڑھیاں چھوٹی کرانے اور منڈانے لگے ہوں ۔ مخالفت کے حکم کا لازمی تقاضا ہے کہ داڑھیاں مجوس سے بڑی رکھی جائیں ۔
(۲)مسلم کی حدیث میں ’’اَرْخُوْا‘‘ اور بخاری کی حدیث میں ’’وَفِّرُوا‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ بعض دیگر احادیث میں اُعْفُوْا، اَوْفُوْا اور اَرْجُوْا کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان تمام الفاظ کے معنی ایک ہیں یعنی لمبا کرنا اور بڑھانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض خشخشی داڑھی رکھ لینے سے ان احادیث کا منشا پورا نہیں ہوسکتا۔
(۳)اسلام زندگی کے تمام معاملات میں اپنے ماننے والوں کا ایک تشخص قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ان احادیث میں داڑھی رکھنے کا تاکیدی حکم اسی پس منظر میں ہے۔ اس لیے داڑھی کو عادت اور رواج کے قبیل سے نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ اسے اسلامی معاشرہ کے ایک شعار اور اسلامی تہذیب کے ایک نشان کی حیثیت دینی چاہیے۔
(۴)اس حدیث میں اور اس مضمون کی دیگر احادیث میں داڑھی کی کوئی مقدار نہیں بیان کی گئی ہے کہ کم از کم کتنی لمبی رکھی جائے۔ اس کا علم رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کے عمل سے ہوتا ہے۔ احادیث میں ہے کہ آں حضرت ﷺ کی ریش مبارک بڑی اور گھنی تھی اور وہ آپ ﷺ کے سینے کو ڈھکے رہتی تھی۔ یہی بات صحابہ کرامؓ اور بالخصوص خلفائے راشدین کی داڑھیوں کے بارے میں بھی ملتی ہے۔ اس بنا پر فقہاء نے داڑھی چھوٹی کروانے اور کٹوانے کو ممنوع قرار دیا ہے۔
بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ داڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد حصہ کٹوایا جاسکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور جو حصہ اس سے زائد ہوتا اسے کٹوا دیتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، حدیث: ۵۸۹۲) حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت جابرؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ (فتح الباری،۱۰/۳۵۰)
بہ ہر حال کسی فقیہ نے ایک مشت سے کم داڑھی ہونے کی صورت میں اسے کٹوانے کو جائز نہیں قرار دیا ہے۔
داڑھی کے مسئلے میں غور کرتے وقت ایک چیز کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ داڑھی کی مقدار کو کسی شخص کی دین داری اور تقویٰ ناپنے کا پیمانہ نہیں بنانا چاہیے۔ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اور اسلامی شعار ہے۔ لیکن اگر اس معاملے میں کوئی شخص کوتاہ ہے تو اسے بے دین اور فاسق قرار دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ آج سے چالیس سال قبل ماہ نامہ زندگی کے اپریل ۱۹۶۳ کے شمارے میں مولانا سید احمد عروج قادری کا ایک تحقیقی اور مدلل مضمون اس موضوع پر شائع ہوا تھا۔ مضمون کے آخر میں انھوں نے بہ طور خلاصہ بڑی متوازن بات لکھی تھی کہ ’’چوں کہ مغربی تہذیب کے استیلاء نے مسلمان معاشرے میں بھی حلق ِ لحیہ (داڑھی منڈانے) کی وبا پھیلا دی ہے، اس لیے حلق لحیہ ترک کرکے ایک ذرا سی داڑھی بھی رکھ لینا بڑا کام ہے اور ایسے شخص کا جذبۂ دینی قابل قدر ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس نے ارشاد نبویؐ کا منشا پورا کردیا، صحیح نہیں ہے۔ ایسے شخص کا عمل ناقص ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ اس کا یہ عمل سنت نبوی کے مطابق ہوجائے۔‘‘
آخر میں تین باتوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں :
(۱) آپ کے سوال میں ’ملاّ لوگ‘ کے الفاظ میں ، جو طنز پوشیدہ ہے اسے بہ خوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی شخص کوئی بات بتائے اور کسی چیز کے سلسلے میں اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی جانب توجہ دلائے تو ’ملاّ‘ کہہ کر اس کی بات کو ہوا میں اڑا دینا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ قرین عقل و دانش یہ ہے کہ ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے کہ اس کی بات صحیح ہے یا نہیں ؟ اور اگر دلائل کی روشنی میں صحیح نکلے تو اس پر عمل کرنے کے لیے خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔
(۲) دین میں جس چیز کا جو مقام ہے اسے وہی مقام دینا چاہیے۔ نفل و مستحب کو واجب اور فرض بنا لینا اور فرائض سے غفلت برتنا، جزئیات و فروع کو اصولِ دین کی حیثیت دینا اور اصول دین کو نظر انداز کرنا صحیح رویّہ نہیں ہے، لیکن ایک سچے مسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ سے محبت اور عقیدت کا مظہر یہ ہے کہ آپ ﷺ کا جو حکم بھی سامنے آئے اور وہ صحیح احادیث سے ثابت ہو، اس پر خوش دلی سے عمل کرنے کی کوشش کرے۔
(۳) ہر شخص اس دنیا میں جو بھی اچھا کام کرے گا، آخرت میں اس کا اجر پائے گا اور جو بھی برا کام کرے گا اس کی اسے سزا ملے گی۔ اگر کسی نے اپنی زندگی میں دو ایک اچھے کام کیے ہیں ، لیکن پوری زندگی غلط کاموں میں گزاری ہو تو آخرت میں اسے غلط کاموں کی سزا ملے گی اور ان دو ایک اچھے کاموں کا اجر دیا جائے گا۔ اس لیے کسی شخص کے زیادہ غلط کاموں کی بنا پر اس کے بعض اچھے کاموں کو بھی ناقابل اعتبار قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکموں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔