ذکرِ رسول ﷺ میں احتیاط

میں ایک مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیتا ہوں ۔ ربیع الاوّل کے مہینے میں میں نے ایک موقع پر اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پرروشنی ڈالی ۔ میں نے بیان کیا کہ مکی دور میں مشرکین نے آپ ؐ کوطرح طرح سے ستایا اور تکلیفیں پہنچائیں ، یہاں تک کہ آپؐ کی جان کے بھی درپے ہوئے۔ میرے پیش نظر سورۃ الانفال کی یہ آیت تھی: وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ (الانفال۳۰) ’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیر یں سوچ رہے تھے کہ تجھے قیدکردیں یا قتل کرڈالیں یا جلا وطن کردیں ۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہا تھا اوراللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ دورانِ تقریر میں نے ایک جملہ یہ بھی کہہ دیا کہ کفارِ مکہ چاہتے تھے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نماز کے بعد ایک صاحب نے مجھے ٹوکا کہ ایسے جملے نہ استعمال کیجئے۔ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے ، جوکسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے۔ بہِ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا اس جملے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے؟
جواب

میں سمجھتا ہوں کہ اگرکوئی خطیب سورۂ انفال کی آیت ۳۰، جس میں کہا گیا ہے کہ کفار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کررہے تھے کہ آپؐ کو قید کردیں یا قتل کردیں یا جلاوطن کردیں ، کی تشریح کرتے ہوئے اپنے الفاظ میں کہتا ہے کہ کفارچاہتے تھے کہ ’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ‘تو اس سے اہانت ِ رسول نہیں ہوتی۔ البتہ میں ساتھ ہی اس بات کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خطابت یا تحریر میں عوام کی ذہنی سطح کا لحاظ کیا جانا چاہیے اور ایسے الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہئیں جنہیں بعض لوگ اہانت پر محمول کرلیں ۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ازواج مطہرات پر ایک کتاب’ امہات الامۃ‘ کے نام سے لکھی ہے ۔انہوں نے ایک جگہ ان کے باہمی اختلاف کے بعض واقعات بیان کرکے لکھا کہ ’’ ان کے درمیان ’جوتیوں میں دال بٹتی تھی‘‘۔ یہ ایک محاورہ ہے ۔ اس کے معنیٰ لغت میں یہ لکھے ہوئے ہیں :آپس میں لڑائی ہونا، نااتفاقی ہونا ‘۔ محاورہ کے اعتبار سے ان کی بات غلط نہ تھی، لیکن ان کے اس اسلوبِ تحریر کوناپسند کیا گیا اور اس پر اتنا شدید احتجاج ہوا کہ ان کی کتاب کے نسخےاکٹھے کرکے چوراہے پر جلائے گئے۔
خلاصہ یہ کہ عوام کے درمیان گفتگو یا تقریر ان کی ذہنی سطح کوپیش نظر رکھ کر کرنی چاہیے اور اسی کے مطابق الفاظ، جملوں اورمحاوروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ یہ چیز ملحوظ نہ رہے تو فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور خطیب کی اپنی شخصیت بھی مجروح ہوجاتی ہے ۔