رسول اللہﷺ کے بچپن کے بعض واقعات

جناب مائل خیرآبادی نے بچوں کے لیے ایک کتاب’ بڑوں کا بچپن‘کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دو واقعات بیان کیے ہیں : پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لڑکے سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ شہر میں ناچ گانے کی محفل لگتی ہے اورلوگ کھیل تماشوں سے دل بہلاتے ہیں ۔ آپ ؐ کے دل میں انہیں دیکھنے کا شوق ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کویہ منظور تھا کہ آپؐ بچپن میں بھی پاک صاف اورنیک رہیں ۔ چنانچہ آپ جاتےجاتے راستے میں کسی کام سے رک گئے اور پھر نیند آگئی ۔ آپ سو گئے اورصبح تک سوتے رہے ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ خانۂ کعبہ کی دیوار گرگئی۔ مکہ کے لوگوں نے مل جل کر اسے اُٹھانا شروع کیا ۔ اُٹھانے والوں میں آپ ؐ اورآپ کے چچا عباسؓ بھی شامل تھے۔ عباسؓ نے آپ کا کندھا۔ چھلا ہوا دیکھا تو آپؐ کا تہہ بندکھول کر آپ کے کندھے پررکھ دیا ۔ آپ ؐ مارے شرم کے بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ تھوڑی دیر میں ہوش آیا تو آپ کے منہ پر تھا۔ ’’میرا تہبند ، میرا تہبند ‘‘ جب آپ کا تہہ بند باندھ دیا گیا تو آپ ؐ کا دل ٹھکانے ہوا ۔ ان دونوں واقعات کے سلسلے میں بعض حضرات نے سخت اعتراض کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے اللہ کے رسول ﷺ کی توہین ہوتی ہے ۔ یہ واقعات ثابت نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں مذکورہ کتاب سے نکال دینا چاہیے۔بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا یہ دونوں واقعات غیر مستند ہیں ؟
جواب

ذکورہ دونوں واقعات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ آپ بچپن سے اعلان نبوت تک بھی اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں تھے۔ چنانچہ آپؐ کی ذات گرامی سے نہ کسی شرکیہ عمل کا صدور ہوا اور نہ آپ کسی غیر شائستہ کام میں مبتلا ہوئے۔ پہلے واقعہ میں صراحت ہے کہ آپؐ نے لہو ولعب کی محفل میں جانے کا ارادہ تو کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اورآپ ؐ راستے ہی میں ایک جگہ سو گئے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ دوسرے واقعہ سے توآپ کی شدّتِ حیا کا اظہار ہوتا ہے۔ ستر کھلتے ہی آپ شرم کے مارے بے ہوش گئے۔ ہوش آیا تو تہہ بند باندھنے کے بعد ہی آپ کوسکون ملا ۔
یہ دونوں واقعات حدیث وسیرت کی مستند کتابوں میں مذکور ہیں ، لہٰذا انہیں ضعیف یا موضوع قرار دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ اوّل الذکر واقعہ کومشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب سیرۃ ابن اسحاق (تحقیق ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ص ۵۸) میں بیان کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر ؒ، جوبہت بڑے محدّث ہیں ، انہوں نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔ (السیرۃ النبویۃ، ۱؍۲۵۱) امام حاکمؒ نے بھی المستدرک علی الصحیحین میں اس کو بیان کیا ہے اوراسے امام مسلم ؒ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اورامام ذہبی ؒ نے اس کی تائید کی ہے۔دیگر کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔ مثلاً دلائل النبوۃ ، ابونعیم ،ص ۱۴۳، الخصائص الکبریٰ ، سیوطی۱؍۲۱۹ ، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ، محمد بن یوسف الشامی، ۲؍۹۹۔۱۰۰۔
دوسرا واقعہ صحیح بخاری(کتاب الصلوٰۃ ، باب کراہیۃ التعرّی فی الصلاۃ وغیرھا ، ۳۶۴، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانہا، ۱۵۸۲، کتاب مناقب الانصار، باب بنیان الکعبۃ ، ۳۸۲۹) اور صحیح مسلم (کتاب الحیض ، باب الاعتناء بحفظ العورۃ ، ۳۴۰) میں مروی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے۔ آپ کی پیدائش ، پرورش ، جوانی ، بڑھاپا، سب انسانوں کی طرح گزرا ہے ۔ آپؐ پر انسانی کیفیات طاری ہوتی تھیں ۔ جولوگ آپؐ کو مافوق البشر سمجھتےہیں انہیں مذکورہ بالا واقعات کودرست سمجھنے میں تردّد ہوتا ہے۔ یہ واقعات معتبر کتب حدیث وسیرت میں مذکور ہیں ۔ اس لیے ان کی تردید کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ذہنی سانچے کودرست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔