رقمِ زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائی

ہماری سوسائٹی کے تحت صوبے کے مختلف شہروں ، قصبات اور دیہاتوں میں تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔ اگرچہ طلبہ سے فیس لی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود بیش تر اداروں میں ماہانہ و سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تعمیر و مرمت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اصحاب ِ خیر سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو جو رقمیں حاصل ہوتی ہیں وہ بالعموم زکوٰۃ کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس رقم سے خسارہ پورا نہ کیا جائے اور اسے تعمیر و مرمت میں نہ لگایا جائے تو پھر کوئی اور صورت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ ادارے ختم یا بے اثر ہوجائیں ۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ نادار اور غریب طلبہ کی فیس وغیرہ زکوٰۃ کی مد سے ادا کی جاتی ہے۔ بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں اور تعمیرات و مرمت پر صرف نہیں کی جاسکتی۔ بہ راہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟
جواب

زکوٰۃ کے مصارف قرآن کریم کی سورہ توبہ آیت ۶۰ میں بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک مصرف ’فی سبیل اللہ‘ ہے۔ اس پر ماضی میں بڑی معرکہ آرا بحثیں ہوئی ہیں ۔ ان بحثوں کے نتیجے میں تین قسم کی آراء سامنے آئی ہیں :
۱- تطبیق (اس مد کو محدود تر کرنا) علماء کی اکثریت ’فی سبیل اللہ‘ کو جہاد (عسکری جہاد) کے معنیٰ میں لیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدرِ اول سے اب تک تمام محدثین، مفسرین، فقہا سے یہی منقول ہے۔ گویا اس پر امت کا اجماع ہے۔ اس سے ہٹ کر جو رائیں منقول ہیں وہ شاذ کا درجہ رکھتی ہیں ۔
۲- تعمیم (اس مد کو وسیع تر کرنا): بعض علماء اس سے تمام ’وجوہ خیر‘ مراد لیتے ہیں اور ہر اچھے کام کو زکوٰۃ کا مصرف قرار دیتے ہیں ۔
۳- توسیع: علماء کے ایک طبقے نے بین بین کی راہ اختیار کی ہے۔ وہ نہ تو ایسی تعمیم کا قائل ہے جو دین کے نام پر ہونے والے ہر کام کو محیط ہو اور نہ اس کے نزدیک ایسی تنگی ہے کہ اس مصرف کے تحت مال زکوٰۃ کو قتال کے علاوہ احیائے دین کے کسی کام پر خرچ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس رائے کے حاملین فی سبیل اللہ کو جہاد فی سبیل اللہ کے معنیٰ میں لیتے ہیں ، لیکن ان کے نزدیک جہاد اپنے درجات اور مراحل کے اعتبار سے عسکری نوعیت کا بھی ہوتا ہے اور نظری و فکری بھی۔ غرض خالصۃً اعلاے کلمۃ اللہ کے مقصد سے کی گئی ہر جدو جہد پر فی سبیل اللہ کا اطلاق ہوگا۔
عصر ِحاضر کے بعض علماء جو پہلی رائے رکھتے ہیں ، وہ دوسری یا تیسری رائے رکھنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں ۔ وہ اسے ’’مغربی تہذیب سے مرعوب اور مغربی عقلیت کے شکار بعض لوگوں کی ذہنی اختراع‘‘ قرار دیتے ہیں (ملاحظہ کیجیے زکوٰۃ کے مصارف از مولانا عتیق احمد بستوی، مکتبہ حرا لکھنؤ، ۱۹۹۲ء، ص: ۱۵- ۱۶) لیکن یہ بات صحیح نہیں ، بل کہ اس کے قائل متقدمین میں بھی بعض لوگ رہے ہیں ۔ فقہائے احناف میں ملک العلماء علاء الدین ابوبکر بن مسعود کا سانی (م۵۸۷ھ) اور ظہیر الدین ابوبکر محمد بن احمد (۶۱۹ھ) تعمیم کے قائل ہیں ۔ تفسیر رازی کے بہ موجب شافعی فقیہ محمد بن علی بن اسماعیل المعروف بالقفال الکبیر (م۳۶۵ھ) نے بھی بعض فقہاء کی جانب اس قول کو منسوب کیا ہے۔
اس موضوع پر عصر ِ حاضر کی بعض اکیڈمیوں کے فیصلوں پر نظر ڈالنی مفید ہوگی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا پانچواں فقہی سمینار جامعۃ الرشاد، اعظم گڑھ میں ۳۱؍ اکتوبر تا ۳؍ نومبر ۱۹۹۲ء منعقد ہوا تھا۔ اس میں یہ موضوع بھی زیر ِ بحث تھا۔ عام شرکاء سمینار کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ سورہ توبہ آیت ۶۰ میں مذکور فی سبیل اللّٰہ کا مصداق غزوہ اور جہاد عسکری ہے۔ دور ِ حاضر میں دینی اور دعوتی کاموں کے لیے درکار سرمایہ کی فراہمی میں پیش آنے والی دشواری کے باوجود شرعاً اس کی گنجایش نہیں ہے کہ زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا دائرہ وسیع کرکے اس میں تمام دینی اور دعوتی کاموں کو شامل کرلیا جائے۔ کیوں کہ قرون ِ اولیٰ میں اس تعمیم و توسیع کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نیز ایسا کرنے سے مسلمانوں کے محتاج، نادار اور افلاس زدہ طبقہ کی مال زکوٰۃ کے ذریعے کفالت کا اہم ترین مقصد فوت ہوجائے گا۔ شرکائے سمینار میں سے تین حضرات (جناب شمس پیر زادہ ممبئی، مولانا سلطان احمد اصلاحی، علی گڑھ، ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی علی گڑھ) نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ ان کے نزدیک فی سبیل اللہ میں عسکری جہاد کے ساتھ وہ تمام کوششیں شامل ہیں ، جو آج کے دور میں واقعۃً دعوت ِ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جا رہی ہوں ۔ (مجلہ فقہ اسلامی جزء دوم، قاضی پبلشرز، نئی دہلی ۱۹۹۴ء، ص: ۹۵۶-۹۵۷)
سعودی عرب کے ممتاز علماء و فقہاء پر مشتمل ایک ادارہ ھیئۃ کبار العلماء کے نام سے قائم ہے۔ اس کے پانچویں اجلاس منعقدہ طائف ۵-۲۳؍ شعبان ۱۳۹۴ھ (اگست ۱۹۷۴ء) میں زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا موضوع بھی شامل تھا۔ اس اجلاس کے شرکاء نے یہ فیصلہ دیا کہ زکوٰۃ کے ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کا مصداق صرف مجاہدین ہیں ۔ تمام امور ِ خیر اس میں شامل نہیں ہیں ۔
(زکوٰۃ کے مصارف، ص: ۱۸۲- ۱۸۳، بہ حوالہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ، ریاض، ج۱، ش ۲)
البتہ عالمِ اسلامی کی ایک دوسری فقہی اکیڈمی کا فیصلہ اس سے مختلف ہے۔ المجمع الفقھی الاسلامی مکہ مکرمہ رابطہ عالم اسلامی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کا آٹھواں اجلاس ۲۸؍ ربیع الثانی تا ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں اس موضوع پر غور کیا گیا کہ مصرف فی سبیل اللہ کا مصداق صرف اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں یا فی سبیل اللہ کا مفہوم عام ہے؟ غور و خوض کے بعد محسوس کیا گیا کہ اس مسئلے میں علما کی دو آراء ہیں ۔ موضوع پر غور اور فریقین کے دلائل پر مناقشے کے بعد اکثریت کی رائے سے درج ذیل فیصلے کیے گئے:
(۱) دوسری رائے کو بعض علمائے اسلام نے اختیار کیا ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات میں یک گونہ اس مفہوم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
(۲) جہاد بالسلاح کا مقصود چوں کہ اعلاے کلمۃ اللہ ہے اور اعلاے کلمۃ اللہ جس طرح قتال سے ہوتا ہے، اسی طرح داعیوں کی تیاری اور ان کی مدد اور تعاون کے ذریعے دعوت الی اللہ اور اشاعت ِ دین سے بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا دونوں طریقے جہاد ہی کے ہیں ۔
(۳) اسلام پر آج ملحدین، یہود و نصاریٰ اور دشمنان دین کی طرف سے فکری اور عقائدی حملے ہو رہے ہیں اور دوسروں کی طرف سے انھیں مادی اور معنوی مدد مل رہی ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان ان کا مقابلہ انھی ہتھیاروں سے کریں ، جن سے وہ اسلام پر حملے کرتے ہیں یا ان سے سخت ہتھیار سے مقابلہ کریں ۔
(۴) اسلامی ممالک میں جنگوں کے لیے مخصوص وزارتیں ہوتی ہیں اور ہر ملک کے بجٹ میں ان کے لیے مالی ضوابط ہوتے ہیں ، جب کہ دعوتی جہاد کے لیے بیش تر ممالک کے بجٹ میں کوئی تعاون و مدد بھی نہیں ہوتی ہے۔
ان مذکورہ بالا امور کے پیش نظر اکثریت کی رائے یہ طے کرتی ہے کہ دعوت الی اللہ اور اس کے معاون اعمال آیت ِ کریمہ میں مذکورزکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔
نوٹ: شیخ صالح بن فوزان، شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل، شیخ محمد رشید قبانی اور ڈاکٹر بکر ابو زید کو مذکورہ قرار داد سے اتفاق نہیں ہے اور ان حضرات کی رائے میں فی سبیل اللہ کو صرف عسکری مجاہدین کے لیے مخصوص رکھنا ضروری ہے۔ شیخ محمد محمود صواف کو قرار داد سے اتفاق ہے، بل کہ ان کی رائے میں یہ توسع اس قدر ہے کہ اللہ کی راہ میں انجام پانے والے خیر کے تمام کام شامل ہیں ۔
(فقہی فیصلہ، طبع دہلی، ۲۰۰۱ء، ص: ۱۷۳، ۱۷۴)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مصرف فی سبیل اللہ کو کچھ علماء عسکری جہاد کے لیے خاص کرتے ہیں تو کچھ دعوت و اشاعت دین کے کاموں کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں اور کچھ ہر اچھے کام کو مصرف ِ زکوٰۃ قرار دیتے ہیں ۔
ایک بات قابل ِ غور یہ ہے کہ جو علماء مصرف فی سبیل اللہ کے عموم کے قائل نہیں ہیں ، وہ بھی عملاً اموالِ زکوٰۃ کو ہر طرح کے دینی کاموں میں خرچ کرتے ہیں ، البتہ وہ اس کے لیے ایک ’حیلہ‘ اختیار کرتے ہیں ۔ اسے انھوں نے ’حیلۂ تملیک‘ کا نام دیا ہے۔ یعنی پہلے کسی مستحق ِ زکوٰۃ کو مال ِ زکوٰۃ کا مالک بنا دیا جائے، پھر وہ اپنی طرف سے اس مال کو دینی کاموں میں خرچ کرنے کے لیے دے دے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جو آج کل اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سکریٹری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ہیں ، انھوں نے اپنی کتاب ’اسلام کا نظامِ عشر و زکوٰۃ‘ میں لکھا ہے:
’’البتہ اگر کہیں ایسے ضرور ی اقدامات موجود ہوں جو دینی اور قومی ضروریات کے اعتبار سے خاص اہمیت کے حامل ہوں ، لیکن زمامِ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہو اور نہ ایسا بیت المال موجود ہو، جس میں مختلف مدات کے لیے رقوم ہوں تو ایک شرعی دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس میں کوئی قباحت نہیں کہ بالواسطہ طور پر زکوٰۃ کی رقم اس مد میں صرف کی جائے۔ اسی کو ’حیلۂ تملیک‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی قباحت نہیں کہ ضروری دینی اور قومی کاموں کے لیے کسی فقیر محتاج اور مستحق ِ زکوٰۃ کو مالک بنا دیا جائے، پھر وہ ان ضروریات میں اس رقم کو خرچ کرے۔
دینی مدارس میں جو رقوم صرف ہوتی ہیں ان میں حیلۂ تملیک سے بہ سہولت بچا جاسکتا ہے۔ مہتمم، سفراء اور منتظمین کی تنخواہیں تو اس لیے دی جاسکتی ہیں کہ فقہاء نے ’عاملین‘ میں زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کرنے والوں اور نظم و نسق انجام دینے والوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ طلبہ کو جو کھانے دیے جاتے ہیں اگر وہ تقسیم کرکے طلبہ کو مالک بنا دیا جائے تو اس سے بھی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ ضروریات کے لیے جو وظائف دیے جاتے ہیں ، اس میں بھی تملیک پائی جاتی ہے اور زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔ رہ گئی اساتذہ کی تنخواہیں اور دوسری مدات تو اگر طلبہ کو تعلیمی وظائف کی رقم دی جائے اور ان سے فیس وصول کرلی جائے تو اب حیلۂ تملیک کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘
’’حیلۂ تملیک کے اس طریقے سے ان ضروریات کے لیے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جو فی زمانہ اسلام کی سربلندی کے لیے پیدا ہوگئی ہیں ۔ زکوٰۃ کے مصارف پر نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد حاجت مندوں کی ضروریات کی تکمیل اور اسلام کی سربلندی ہے۔ آج اسلام کی سربلندی کے لیے جو وسائل مطلوب ہیں ، وہ ماضی سے بالکل مختلف نوعیت کے ہیں ۔ ان مقاصد کے لیے تملیک کے حیلے کے ذریعے بالواسطہ زکوٰۃ کی آمدنی سے فائدہ اٹھانا مزاجِ شریعت کے عین مطابق ہے۔‘‘
(اسلام کا نظامِ عشر و زکوٰۃ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مرکز دعوت و تحقیق حیدر آباد، ۱۹۹۴ء، ص ۱۳۵،۱۳۶)
دار العلوم دیوبند کے مفتی ِ اول مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ سے ایک صاحب نے ’’عملہ و دفتر، انجمن ہائے تبلیغ و حفاظت اسلام‘‘ کی تنخواہ اور مصارف خوراک و سفر پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کی بابت سوال کیا۔ مفتی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا:
’’غرض یہ ہے کہ فی سبیل اللہ میں بے شک موافق تفسیر صاحب بدائع کے جملہ مصارف ِ خیر داخل ہیں ۔ لیکن جو شرط ادائِ زکوٰۃ کی ہے وہ سب جگہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ بلا معاوضہ تملیک محتاج کی ہونی ضروری ہے۔ اس میں حیلۂ تملیک اول کرلینا چاہیے، تاکہ تملیک کے بعد تبلیغ وغیرہ کے ملازمین کی تنخواہ وغیرہ میں صرف کرنا اس کا درست ہوجائے۔‘‘
(حوالہ سابق، ص ۱۳۶، ۱۳۷، بہ حوالہ فتاویٰ دار العلوم ۶/۲۸۳)
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ رقومِ زکوٰۃ وقت ِ ضرورت اساتذہ کی تنخواہوں اور مدرسہ کے دیگر کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہیں ۔