روزہ کا فدیہ کس کے لیے ؟اورکتنا؟

:براہ کرم وضاحت فرمائیں ،کن صورتوں میں روزہ کی قضا کی اجازت ہے؟ اور کب روزے کا فدیہ اداکیا جاسکتاہے؟
جواب

رمضان کا روزہ فرض کیاگیا ہے،اس کی حکمتیں اورفوائد بیان کیے گئے ہیں ، یہ سمجھایا گیا ہے کہ اسے اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھو، یہ محض گنتی کے چند دن ہیں ،اللہ تعالیٰ تمہیں  مشقت میں  نہیں  ڈالنا چاہتا،وہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیاگیا ہے کہ یہ احکام عام لوگوں کے لیے ہیں ،جو صحت مند ہوں اورآسانی سے روزہ رکھ سکتے ہوں ۔ چنانچہ جن لوگوں  کو کوئی عذرہوان کےلیے رخصت کی صورتیں بھی بتادی گئی ہیں ۔چنانچہ ارشاد ہوا
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ (البقرۃ۱۸۴)
’’اگر تم میں سے کوئی بیمارہو،یا سفرپرہوتو دوسرے دنوں  میں  اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔‘‘
اہمیت کے پیش نظر یہی بات اگلی آیت میں  پھردہرائی گئی ہے۔
اس آیت میں دوطرح کے معذوروں کا تذکرہ ہےایک مسافر،دوسرامریض۔ مریض دوطرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں  کوئی عارضی مرض ہو،جس سے جلد یا بہ دیر شفاپانے کی امید ہو،مثلاً شدید نزلہ زکام،دردِسر،دست ،پیچش، تیز بخار،پیٹ میں در، ورم جگر یا کوئی دوسرا ایسا مرض، جس کی موجودگی میں روزہ رکھنے میں  بہت زحمت ہو۔ایسے مریضوں  کو اجازت دی گئی ہے کہ رمضان آئے اور وہ ایسے کسی مرض میں مبتلا ہوں تو اس وقت روزہ نہ رکھیں ، بعد میں جب وہ صحت یاب ہوجائیں تب ان روزوں کی قضا کرلیں ۔
دوسرے وہ مریض ہیں  جو ایسے امراض میں  مبتلا ہوں جن سے اب شفاپانے کی امید نہ ہو،ان امراض کا اب زندگی بھر کا ساتھ ہو، مثلاً ذیابیطس(Sugar)،شدید دمہ، امراض قلب، یا کوئی ایسا مرض جس میں تھوڑی تھوڑی دیر میں  غذایا دوالینی پڑتی ہے۔ چوں  کہ ایسے امراض سے مستقل شفاپانے کی امید نہیں  ہے اس لیے ایسے مریضوں سے بعد میں روزوں کی قضا کرنے کی امید نہیں ۔ ایسے مریضوں کو روزہ نہ رکھ کر اس کا فدیہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔
حاملہ عورت،نفساء(بچے کی پیدائش سے فارغ ہونے والی عورت) اور دودھ پلانے والی عورت کا شماربھی ایسے مریضوں میں کیا گیا ہےجنھیں  رمضان کے روزے نہ رکھ کر بعد میں ان کی قضا کرنے کی اجازت ہے۔
جن عورتوں  کے روزے حمل اوررضاعت کی وجہ سے چھوٹ گئے ہوں اور بعد میں بھی وہ ان کی قضا نہ کرسکی ہوں ،یہاں  تک کہ اب ان کی صحت بہت خراب ہوگئی ہو اور وہ روزہ نہ رکھنے کی پوزیشن میں ہوں  تواب وہ فدیہ دے سکتی ہیں ۔
یہ صورت کہ عورت موجودہ رمضان کے روزےتو رکھ لے،لیکن پچھلے چھوٹے ہوئے روزوں  کا فدیہ دے دے ،فقہا نے اسے جائز نہیں قراردیاہے۔موجودہ رمضان کے روزے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوشش کرے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا بھی کرسکتی ہے۔ بہرحال اس معاملے میں عورت کی ہمت اورسکت کو ملحوظ رکھنا مناسب ہوگا۔اگر وہ جیسے تیسے موجودہ رمضان کے روزے تو رکھ لے رہی ہے، لیکن پچھلے چھوٹے ہوئے روزوں  کی قضا نہیں کر پارہی ہے تو میری رائے میں وہ بھی سابقہ چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ اداکرسکتی ہے۔
چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا جلد ازجلد کرنی چاہیے۔زندگی کا کیا بھروسا؟! پتہ نہیں ، کب مہلتِ عمل ختم ہوجائے؟لیکن بہرحال ان کی قضا اگلے رمضان سے قبل کرنا ضروری نہیں  ہے۔اگر نہ کی جاسکی ہوتو بعد میں جب توفیق ہو، قضا کی جاسکتی ہے۔
بوڑھے مرداور بوڑھی عورت کا شمارایسے مریضوں میں  کیا گیا ہے جو روزے نہ رکھ کر اس کا فدیہ دے سکتے ہیں ۔احکام روزہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ (البقرۃ۱۸۴)
’’جولوگ بہ مشکل روزہ رکھ سکتے ہوں وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’ اس آیت کا حکم اس بوڑھے مرداور بوڑھی عورت کے لیے ہے جو روزہ رکھنے کی بہ آسانی طاقت نہ رکھتے ہوں ۔‘‘ (بخاری۴۵۰۵)
اس آیت میں ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بتایا گیا ہے ۔کتنے وقت کا کھانا مراد ہے؟اس کی صراحت نہیں ہے۔ بعض حضرات نے ایک وقت کا کھانا مراد لیا ہے، لیکن روزہ میں چوں کہ سحری اورافطار دونوں آتے ہیں ، اس لیے جمہورفقہا اس سے دووقت کا کھانا مراد لیتے ہیں ۔
کوئی شخص ایک روزہ کے فدیہ کے طورپر ایک غریب شخص کو اپنے گھربلاکرکھانا کھلاسکتا ہے۔پورے رمضان کے روزوں کا فدیہ اداکرنا ہوتوتیس(۳۰)غریبوں کو دو وقت یا ساٹھ(۶۰) غریبوں کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جاسکتاہے۔ حضرت انس بن مالکؓ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ،جب وہ بہت بوڑھے ہوگئے تھے ،ایساہی کرتے تھے۔
فدیہ میں  دووقت کے کھانے کے بہ قدرراشن بھی دیا جاسکتا ہے۔کھانے کی رقم بھی دی جاسکتی ہے۔اس کا تعین ہر شخص اپنی حیثیت کے اعتبار سے کرے کہ دو وقت کے اس کے کھانے کی مالیت کیا ہوگی؟
ایک مہینہ کے روزوں کے فدیہ کی رقم کسی ایک شخص کودی جاسکتی ہے، یا ایک سے زیادہ لوگوں کو بھی ۔
فدیہ کی پوری رقم رمضان کی ابتدا میں  بھی ادا کی جاسکتی ہے، اس کے وسط میں بھی اور اس کے آخرمیں بھی ۔
بعض فقہا نے روزہ کے فدیہ کو صدقۂ فطر پرقیاس کیا ہے۔ان کی روٗسے ایک روزہ کا فدیہ نصف صاع گیہوں کے بہ قدر ہے۔ جدید وزن کے مطابق نصف صاع تقریباً پونے دوکلوکے برابر ہوتا ہے۔اس حساب سے قیمت کا اندازہ لگاکر فدیہ ادا کیاجاسکتا ہے۔
فدیہ کے احکام مال داراوراوسط معاشی حیثیت کے مسلمانوں کے لیے ہیں ۔ جو شخص غریب ہواور دائمی مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہو، اس کے لیے توبہ واستغفار کافی ہے۔اسے فدیہ کی رقم جمع کرنے اورصدقہ کرنے کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اورتوبہ قبول کرنے والا ہے۔