ریاستی مظالم کے شکار لوگوں کو چھڑانے کے لیے زکوٰۃ کا استعمال

ادھر کچھ عرصے سے مسلم نوجوانوں کی بڑی تعدادریاستی مظالم کا شکار ہے۔ انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور ان پر بہت سے مقدمات لاد دیے جاتے ہیں ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جسے فراہم کرپانا بسا اوقات ان مظلومین کے لیے ممکن نہیں ہوپاتا۔ کیا اس کام میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے؟
جواب

زکوٰۃ کی جو مد ّات قرآن کریم میں مذکور ہیں ان میں سے ایک ’وَ فِی الرِّقَابِ‘ (التوبۃ: ۶۰) ہے، یعنی گردنوں کو چھڑانے میں ۔ نزول ِ قرآن کے عہد میں غلامی کا رواج تھا۔ انسانوں کی گردنیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں ۔ قرآن نے ان کی گلوخلاصی کو کار ثواب قرار دیا۔ جمہور علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ ’فی الرقاب‘ سے مراد غلام ہیں ۔ چوں کہ غلامی کی یہ رسم الحمد للہ اب ختم ہوگئی ہے، اس لیے زکوٰۃ کا یہ مصرف اب باقی نہیں رہا۔
اس زمانے میں ایسے قیدی بھی پائے جاتے تھے، جو مختلف جنگوں میں گرفتار کر لیے جاتے تھے، اس لیے کتب ِ فقہ میں ایک بحث یہ ملتی ہے کہ کیا زکوٰۃ قیدیوں کو چھڑانے میں صرف کی جاسکتی ہے؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ قیدی کو چھڑانے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض علماء، جن میں ابن عبد الحکم مالکیؒ، قاضی ابن العربی مالکیؒ، امام احمدؒ (ایک روایت کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہؒ قابل ذکر ہیں ، اس کی اجازت دیتے ہیں ۔
ادھر کچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دو چار ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے نوجوانوں کو بلا کسی قصور کے جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ ان پر اتنے مقدمات لاد دیے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی میں برسوں گزر جاتے ہیں اور جیلوں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوپاتی۔ ان کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنا، ان کے مقدمات کی پیروی کرنا، انھیں قید و بند سے چھٹکارا دلانا اور ان کی فلاح و بہبود کے دیگر کام انجام دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ امت کے سربر آوردہ طبقے کو ان کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔
کیا ریاستی دہشت گردی کے شکار ان اسیران کے مقدمات کی پیروی اور ان کو رہائی دلانے کی کوششوں میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟ فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہیے۔ راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے۔ قرآن نے ’وَ فِی الرِّقَابِ‘ (گردنیں چھڑانے میں ) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے۔ زمانۂ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کے ان اسیران ِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے۔
ان مظلومین کے سلسلے میں کرنے کے دو کام اور ہیں جو شاید ان کے مقدمات کی پیروی سے زیادہ اہم ہیں :
اول یہ کہ یہ نوجوان عام طور پر اپنے گھروں کا سہارا ہوتے ہیں ۔ ان کے ذریعۂ معاش پر ان کے پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ قید و بند کی بنا پر ان کا سلسلۂ معاش منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے خاندان بڑی آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ بسا اوقات ان کے افرادِ خانہ دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں ۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ متمول حضرات ان خاندانوں کی خبر گیری کریں اور ان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری لیں ۔
دوم یہ کہ جیلوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور ان کو جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں ۔ ایسے میں ان نوجوانوں کی راحت رسانی کی بھی کوشش کرنی چاہیے، ممکن ہو تو انھیں کچھ سہولیات مثلاً پہننے کے کپڑے اور غذائی اشیاء وغیرہ پہنچائی جائیں ، دینی لٹریچر، کتب و رسائل بھی پہنچائے جائیں ، تاکہ ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور انھیں ذہنی و نفسیاتی سکون بھی مل سکے۔