شادی میں تاخیر

میرے لڑکے کی عمرپچیس سال ہے۔ میں اب اس کا نکاح کردینا چاہتا ہوں ، لیکن اس کا اصرار ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل ہوجانے اورکہیں ملازمت حاصل کرلینے کے بعد ہی نکاح کروں گا۔ میرا اندازہ ہے کہ ابھی اس کے برسرِ روزگارہونے میں کم ازکم چارپانچ سال اور لگ جائیں گے۔اس بنا پر میں  الجھن کا شکار ہوں ۔ براہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میری سوچ درست ہے یا میرے لڑکے کی بات میں وزن ہے؟
جواب

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی بلوغت کے بعد ان کے نکاح میں زیادہ تاخیر نہ کی جائے۔ ہرانسان کے اندروں میں  جنسی جذبہ ودیعت کیاگیا ہے ۔ اسلام نہ اس کو کچلنے اوردبانے کا قائل ہے نہ اس کی تسکین کے لیے کھلی چھوٹ دینے کا روادار ہے، بلکہ وہ اس کو نکاح کے ذریعے پابند کرنا چاہتا ہے۔ جنسی جذبہ اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ اگر انسان کو اس کی تسکین کے جائز ذرائع میسر نہ ہوں تو ناجائز ذرائع اختیار کرنے میں اسے کوئی باک نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر بچوں کا نکاح وقت پرنہ کیا جائے تو ان کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ برابر قائم رہتا ہے ۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہٗ وَخُلُقَہٗ فَزَوِّجُوْہٗ، اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ
(ترمذی۱۰۸۴:، ابن ماجہ۱۹۶۷:)
’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دین داری اوراخلاق پرتم کو اطمینان ہوتو اس سے نکاح کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو روئے زمین میں فتنہ اوربڑے پیمانے پر فساد برپا ہوجائے گا۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے:
’’یعنی کوئی ایسا شخص جو دین داری اوراخلاق کے معاملے میں  قابل قبول ہو، اگر اس کے پیغامِ نکاح کو تم قبول نہ کروگے اورحسب ونسب ،حسن وجمال اورمال ودولت کی رغبت رکھوگے تو بڑے پیمانے پرفساد برپا ہوجائے گا۔اس لیے کہ ایسا کرنے سے بہت سی لڑکیاں بغیر شوہروں کے اوربہت سے لڑکے بغیربیویوں کے زندگی گزاریں گے، چنانچہ زناعام ہوجائے گا، سرپرستوں  کی عزت ووقار پردھبہ لگ جائے گا، ہرطرف فتنہ وفساد پھیل جائے گا،نسب پامال ہوگا اورصلاح وتقویٰ اورعفت وعصمت میں کمی آجائے گی۔‘‘ (تحفۃ الاحوزی، شرح جامع الترمذی، عبدالرحمن المبارک فوری، بیت الافکارالدولیۃ،عمان،الاردن۱:؍۱۱۳۲)
اس حدیث کا خطاب بہ ظاہر لڑکیوں کے سرپرستوں سے ہے،لیکن حقیقت میں اس کے مخاطب لڑکیوں اورلڑکوں دونوں کے سرپرست ہیں ۔نہ لڑکی کا سرپرست اس وجہ سے اس کے رشتے میں تاخیر کرے کہ جب حسبِ حیثیت ،مال دار اوربرسرِ روزگارلڑکا ملے گا تبھی رشتہ کریں  گے،چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے اورنہ لڑکے کا سرپرست اس وقت تک اس کا نکاح ٹالتا رہے جب تک اسے کوئی اچھی اوراونچی ملازمت نہ مل جائے۔
لیکن اس معاملے میں دوسرا پہلو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری اصلاً شوہر پرہے۔مروج مشترکہ خاندانی نظام شرعی طورپر پسندیدہ نہیں  ہے ،اس لیے لڑکے کی شادی سے قبل بہتر ہے کہ وہ اتنا کچھ کمانے لگے کہ اپنی بیوی کے ضروری مصارف برداشت کرسکے۔ عموماً والدین جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے لڑکوں کی جلدازجلد شادی کردینا چاہتے ہیں ، لیکن اس پہلو کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی ۔ چنانچہ بعد میں وہ مسائل کاشکار ہوتے ہیں ۔اس لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں پہلوئوں  کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیاجائے۔